پاکستان آرمی کی تخلیق کردہ مذہبی شدت پسند تنظیم تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کوافغان طالبان سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں جب جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تو ٹی ایل پی بل سے نکل کر سڑکوں پر آتی رہی ہے اور پر تشدداحتجاج کا راستہ اپنا کر سرکاری و عوامی املاک سمیت عام لوگوں کی جا ن کو نقصان پہنچاتی رہی ہے۔ ٹی ایل پی کے احتجاجی ورکرز کے ہاتھوں میں موجود لاٹھی اور پتھر سے اب تک کئی پولیس اہلکار سمیت عام افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسلامی مذہبی شدت پسندوں کے حوالے سے امریکاکی ایک اسسمنٹ کے مطابق اسلامی شدت پسندی نظریات کے حامل سب سے زیادہ خطرناک جنگجو القاعدہ کے عربک، چیچن اور پنجابی طالبان ہوتے ہیں۔ جبکہ ان تینوں کے نسبت افغان طالبان کو زیادہ خطرناک تشخیص نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی سول حکومت جو ٹی ایل پی کیخلاف اب سخت کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے،مبصرین کے مطابق اب ایسا کرنا ممکن نہیں رہاہے کیونکہ ٹی ایل پی اب صوبہ پنجاب میں مکمل طور پھیل چکا ہے اور اس کی افرادی قوت کا اندازہ خادل حسین رضوی کی جنازہ سے لگایا جاسکتا ہے اور اسی طرح موجودہ حکومت اس کے خلاف گٹنے ٹیک چکا ہے اورمارچ کے خاتمے کیلئے اس کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اسے واپس اپنے بلوں میں بھیجنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ٹی ایل پی کی شکل میں ایک پنجابی طالبان یعنی تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) پیدا کرچکی ہے جس طرح ماضی میں ٹی ٹی پی نے پاکستان بھر میں دہشتگرانہ کارروائیاں کی ہیں جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنے اور پھر پاکستان آرمی کی جانب سے ان کے خلاف شمالی و جنوبی وزیرستان میں آپریشن سے ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان منتقل ہوگئی۔اب وہاں سے افغان طالبان کی تعاون سے پاکستان میں فورسز پر حملے کر رہی ہے۔
ٹی ایل پی کے شدت پسند کارکنان گذشتہ ایک ہفتے سے زائد سڑکوں پرہیں اور اسلام آباد کی جانب مارچ کر رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ کئی جگہوں پرکنٹینر سے راکواٹین کھڑی کی گئیں جبکہ بعض جگہ خندقیں کھودی گئی ہیں لیکن ٹی ایل پی کارکنان اور پولیس مابین جھڑپوں سے اب تک کئی پولیس اہلکارہلاک ہوچکے ہیں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے بعد مارچ کو جہلم میں روکا گیاہے لیکن مارچ ابھی تک مکمل طور پر ملتوی نہیں ہوا ہے جو حکومت کے سر پر ایک لٹکتی تلوار کی صورت میں موجود ہے۔
گذشتہ تین سالوں کے دوران نو مرتبہ ٹی ایل پی سڑکوں پر نکل چکا ہے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرچکا ہے۔اب سول حکومت چاہتی ہے کہ جس طرح تحریک طالبان پاکستان کیخلاف ماضی میں فوجی آپریشن کرکے اس کا صفایا کیاگیابالکل اسی طرح ٹی ایل پی کیخلاف سخت فوجی کارروائی کی جائے لیکن عسکری اسٹیبلمنٹ سول حکومت کی اس خواہش کو رد کرچکی ہے۔
ٹی ایل پی عسکری اسٹیبلمشنٹ کی تخلیق کردہ تنظیم ہے اور وہ بالکل نہیں چاہتی کہ اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے۔ لیکن اگر ٹی ایل پی کے خلاف کسی قسم کی بھی عسکری کارروائی عمل میں لائی جائے گی تو فوج کو دندان شکل جواب مل سکتی ہے کیونکہ ٹی ایل پی کا تعلق اسلام کے سب سے بڑے فرقے بریلوی سے ہے اور وہ پنجاب بھر میں پھیل چکاہے۔اگر پنجاب کے گلی کوچوں میں اس کے خلاف آپریشن کی گئی توفوج کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پرے گا۔
ٹی ایل پی اگرچہ ابھی تک مسلح نہیں ہے لیکن لاٹھی اور پتھروں سے لیس ہے اور اس کی افرادی قوت اور شدت پسندانی نظریات کی وجہ سے اسے طالبان سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جارہا ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ فوج ٹی ایل پی کے خلاف کسی بھی سخت کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا۔اگر ٹی ایل پی کے خلاف سخت کارروائی ہوگی تو سول حکومت کی جانب سے کی جائے گی جس سے حکومت کو بری طرح شکست کھا جائے گی اور اس سے ٹی ایل پی ایک اور طاقت کے روپ میں سامنے آئے گا۔
ٹی ایل پی کے موجودہ سربراہ سعد رضوی جوپاکستانی میڈیا کے مطابق جیل میں ہے لیکن اصل میں اسے جیل سے نکال کر ایک ریسٹ ہاؤس میں رکھا گیا ہے جہاں اس کے ساتھ حکومتی وفد مذاکرات کر رہا ہے تاکہ وہ اسلام آباد میں دھرنے کا مارچ ملتوی کردے اور اس مذاکرات کی سہولت کار عسکری اسٹیبلمشنٹ ہے۔
ابھی فی الحال ٹی ایل پی کی مارچ کو اسلام آباد آنے سے روکا گیا ہے لیکن مبصرین کا خیال ہے ٹی ایل پی پنجابی طالبان کی صورت اختیار کرچکاہے اورمستقل قریب میں افغان طالبان کی طرح پاکستان میں اپنی حکومت قائم کرے گی۔
تجزیہ کار یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ جس طرح عسکری اسٹیبلشمنٹ نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کوتخلیق کیا جو بعد میں اس کے کنٹرول سے نکل گیا بالکل اسی طرح عنقریب پاکستانی اسٹبلشمنٹ ٹی ایل پی پر بھی اپنا کنٹرول کھودے گا۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق کردہ ٹی ایل پی اب ایک ایسے اژدہے کی روپ دھار چکا ہے جس کو روکنااب کسی طوربھی ممکن نہیں ہے۔اور پاکستانی عوام کو اس کی تخلیق کاروں کااحتساب کرنا ہوگاجواپنے فائدے کیلئے پوری دنیا کی امن تباہ کرنے کیلئے ایک ایسی اسلامی انتہا پسندنظریات کے حامل تنظیم کو جنم دے چکے ہیں جس کا تجربہ شام و عراق میں داعش کی صورت میں دیکھا گیا ہے۔
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کی بنیاد خادم حسین رضوی نے 2017 میں رکھی۔ بریلوی سوچ کے حامل خادم حسین رضوی محکمہ اوقاف کی ملازمت کرتے تھے اور لاہور کی ایک مسجد کے خطیب تھے۔
لیکن 2011 میں جب پنجاب پولیس کے گارڈ ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا تو انھوں ممتاز قادری کی کھل کر حمایت کی جس کے نتیجے میں پنجاب کے محکمہ اوقاف کی جانب سے انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
اس کے بعد نہ صرف خادم حسین رضوی نے ناموس رسالت قانون اور آئین کی شق 295سی کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی بلکہ ممتاز قادری کی رہائی کے لیے بھی سرگرم رہے اور جنوری 2016 میں ممتاز قادری کے حق میں حکومتی اجازت کے بغیر علامہ اقبال کے مزار پر ریلی کا انعقاد بھی کیا۔
اسی سال جب ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی تو اس کے خلاف احتجاج کے لیے اسلام آباد کے ڈی چوک کا رخ کیا تاہم حکومت سے مذاکرات کے بعد یہ احتجاج چار دن کے اندر ہی ختم کر دیا گیا۔
اسی دھرنے کے اختتام پر مولانا خادم رضوی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ‘تحریک لبیک پاکستان یا رسول اللہ’ کے نام سے باقاعدہ مذہبی جماعت کی بنیاد رکھیں گے۔
خادم رضوی کے وفات کے بعد ٹی ایل پی سربراہی اس کے بیٹے سعد رضوی کر رہے ہیں۔