گذشتہ روز 9 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پاکستان کے راجدانی اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب سے ڈی چوک تک ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔
بلوچ میڈیا “سنگر آن لائن ” کے مطابق اس ریلی میں بلوچ لاپتہ افرادلواحقین سمیت سماجی و انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان، طلبا اور انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے درجنوں افراد شریک تھے۔
ریلی کے شرکا نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازای کا مطالبہ کیا۔
ریلی میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی صاحبزادی سمی بلوچ، لاپتہ راشد حسین بلوچ بھتیجی، لاپتہ جہانزیب بلوچ کی ماں سمیت درجنوں بلوچ لاپتہ افرادلواحقین شامل تھیں۔
ڈی چوک پر دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین ایمان مزاری، طاہرہ عبداللہ،سمی بلوچ،ماہ زیب بلوچ،آغا حسن بلوچ، سینیٹر طاہر بزنجو، ایوب ملک اور دیگر نے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کو ریاست کیلئے ایک ناسور قرار دیکر عسکری اسٹیبلمشمنٹ کو اس کا ذمہ دار وقرار دیا اور اقوام متحدہ سے اس سلسلے میں فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔
ایمان مزاری نے کہا کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کو شیدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جرنیل،باجوہ یا فیض حمیدکے بھائی یا باپ کو اٹھایا جاتاتوپوری فوج ملک میں آگ لگادیتی۔آج اس دھرنے میں موجود لوگ پر امن ہیں،انہیں پر امن رہنے دو،ان کے جو پیاروں کو بازیاب کریں، یاد رکھیں یہ ملک ایک دفعہ پہلے ٹوٹا تھا،لوگوں کو نہ اکسائیں اور جبری گمشدگیوں کا یہ گھناؤکھیل بند کریں۔
طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ یہ جو ہمارے پیارے اٹھاکر غائب کئے گئے ہیں ان کے لئے لاپتہ افراد کا لفظ استعمال نہ کریں یہ بہت چھوٹا لفظ ہے۔ ان کیلئے غیر قانونی حراست،جبری حراست اورغیر ارادی طور پر جبری حراست کا لفظ کااستعمال کرنا چاہیے۔
سمی بلوچ نے کہا کہ یہ ایک ایسا درد ہے، ایک ایسی نہ ختم ہونے والی تکلیف ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، اتنے سالوں سے، اتنی دہائیاں گزر گئیں لیکن یہ دردیہ تکلیف بدستور قائم ہے۔ ہمیں غدار قرار دیا جاتا ہے لیکن یہی بلوچستان میں قانون کی دھجیاں اڑا کر لوگوں کو غیر قانونی طور پرلاپتہ کرتے ہیں تو وہ کیسے غدار نہیں ہوگئے جو اپنے بنائے ہوئے پارلیمنٹ کی قانون نہیں مانتے۔ ہماری بس یہ مطالبات ہیں کہ ہمارے پیاروں کو اپنے عدالتوں میں پیش کریں اور سزائیں دیں،اس طرح انہیں سالوں سال لاپتہ نہ کریں۔
سمی بلوچ نے کہا کہ اگر لاپتہ افرادکے معاملے پر سپریم کورٹ بے بس ہے تو ہمیں بتا دے، ہمیں جھوٹی تسلیاں دینا چھوڑدے، ہمیں تاریخ دینا چھوڑ دیں،پھر ہم جانیں یہ ریاست جانے،پھر ہمیں پر امن شہری یا پر امن لوگ کا لقب نہیں دے سکتے کیونکہ اگرآپ دہشتگردی پر اترسکتے ہیں تو ہم بھی اپنے پیاروں کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔