شہید بانک کریمہ ”رژنِ بلوچستان“ ہیں، مرکزی ترجمان بی این ایم

0
166

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق چیئرپرسن اور بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے رہنما شہید بانک کریمہ بلوچ کو ان کی پہلی برسی کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایسی ہستیاں صدیوں میں جنم لیتی ہیں جو اپنی عملی جدوجہد سے تحریکوں اور سماج کو تبدیل کرکے ایک نئی زندگی عطا کرتی ہیں۔ شہید کریمہ بلوچ کا شمار انہی ہستیوں میں ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی قومی غلامی کے خلاف جدوجہد میں گزاری اور بلوچ سماج کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ شہید نے بلوچ قومی تحریک کا پیغام دیدہ دلیری کے ساتھ عوام تک پہنچایا۔ انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے کا دورہ کیا، ہزاروں مصائب اور تکالیف برداشت کیں لیکن ان کے عزم و استقلال میں کمی کے بجائے مزید توانائی پیدا ہوتی گئی اور وہ نہایت کم عرصے میں ایک سیاسی رہنما کے طور پر متعارف ہوئے۔

ترجمان نے کہا کہ ریاست پاکستان نے بانک کریمہ بلوچ کے خلاف بربریت کا بھیانک مظاہرہ کیا۔ سیاسی دوست و رفیقوں کی گرفتاری، جبری گمشدگی اور شہادتوں کے علاوہ ان کے خاندان کو نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ماموں نور احمد کو شہید کیا گیا، گھر پر کئی بار حملے کیے گئے۔ دشمن اپنی بہیمانہ حرکات سے یہ سمجھ رہا تھا کہ بانک ان مظالم سے مرعوب ہوکر جدوجہد سے تائب ہوگی۔ لیکن عظیم کریمہ دشمن کی اندازوں سے کہیں زیادہ بہادر نکلیں۔ نہ صرف وطن بلکہ جلاوطنی میں بھی عالمی سطح پر بلوچ قومی آزادی کے لیے موثر آواز اٹھاتی رہی۔ پاکستان نے واضح پیغام دی تھی کہ ہم اپنے لوگوں کے ذریعے انہیں وہاں بھی خاموش کرسکتے ہیں لیکن بانک کو اپنی زندگی سے زیادہ قومی تحریک عزیرتھی۔ انہوں نے خاموشی کے بجائے ہر فورم پر بلوچ قومی آزادی کے لیے آواز بلند کی۔ یہ دشمن کے لیے ناقابل قبول تھا۔ انہوں نے ہماری بانک کی سانسیں ہم سے چھین لیں۔ لیکن جس زندگی کا خاتمہ کینیڈا میں کیا گیا، آج وہ بلوچستان اور دنیا بھر کے بلوچوں اور مظلوم و محکوم انسانوں کے دلوں کے دھڑکنوں اور لہوکے روانی میں شامل ہوکر رواں دواں ہے۔

انہوں نے کہا، بانک کریمہ بلوچ کی قتل کے بعدبھی دشمن اپنی سفاکیت سے باز نہ آیا۔ ان کی میت کے اغوا اور تدفین کی راہ میں رکاوٹیں ڈال کر بلوچستان و سندھ سے ہزاروں لوگوں کو بندوق کی زور پر ان کی آخری دیدار سے محروم رکھ کر پاکستان نے ثابت کر دی کہ بلوچ کا دشمن کتنا بے ظرف، بزدل اور انسانیت سے گری ہوئی ہے۔ لیکن بانک کریمہ اپنی زندگی میں یہ سبق ہر بلوچ کو پڑھا چکی تھیں کہ دشمن کی شکست ان کی سفاکیت اور بربریت میں پنہاں ہے۔

ترجمان نے کہا بانک کریمہ سرزمین اور اپنی مٹی سے بے پناہ عشق کرتی تھیں۔ وہ اپنی سرزمین کو تاریکی میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ جب تک یہاں تھیں، شب و روز تاریکی کے خلاف جدوجہد میں مصروف رہیں۔ جب تنظیم نے انہیں جلاوطنی کا تلخ گھونٹ پینے کاصلاح دی تو انھوں نے دیار غیر میں بھی قومی حقِ آزادی کا علم بلند کیا۔ غلامی تاریکی ہے۔ بھیانک تاریکی۔ روشنی کے شیدائی بانک کریمہ بلوچ نے اس تاریکی کے خلاف اور روشنی کے حصول کے لیے اپنی زندگی قربان کی۔ بلاشبہ وہ ”رژنِ بلوچستان“ ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ انہوں نے بلوچ سماج میں جو انقلابی تبدیلی کے لئے کردار ادا کیا، آج اسی انقلابی تبدیلیوں کی وجہ سے بلوچ خواتین نوآبادیاتی بیڑیوں کو اتار پھینک کر جدوجہد کا حصہ بن رہی ہیں۔ وہ ان کی پھیلائی ہوئی روشنی کو مزید پھیلا رہی ہیں جس سے غاصب قوتیں خوف میں مبتلا رہتی ہیں۔

بحیثیت بلوچ ہمیں شہید کے سیاسی نظریات اور جدوجہد کا مطالعہ کرکے قومی آزادی کی جدوجہد کو سماج کے دیگر طبقوں تک پہنچانے کی ضرورت پر توجہ دینا چاہئیے۔ شہید نے اپنی جدوجہد سے سماج کو جو زندگی عطا کی تھی، اسے قائم و دائم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کی دیگر خواتین شہید کے نقش قدم پر چل کر قومی تحریک کو مزید توانائی عطا کرکے اپنی قومی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوجائیں۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ بانک کریمہ کی زندگی اور جدوجہد کا محور بلوچ عوام کی خوشحالی اور آزادی کے لئے تھی۔ ان کی زندگی بلوچ سماج میں رہنے والے ہر فرد کے لئے ایک مثال ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کی سیاسی خدمات اور قربانی کو مدنظر رکھ کربلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے ان کی شہادت کے دن کو ”بلوچ وومن ڈے“ کے طور پر منانے کا اعلان کیاہے۔ یہ ان کی شایان شان ہے۔ پارٹی بی ایس او آزاد کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں