ٹرانسکرپشن : دلمراد بلوچ
نیوزانٹرونشن کی تیسری سالگرہ کے موقع پرسماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ” سال 2021 میں مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کے مظالم ” کے عنوان پرایک مکالمے کا انعقاد کیاگیا۔ جس کی میزبانی نیوز انٹرونشن کے بنیادکار اور ایڈیٹرانچیف ویویک سنہا نے کی جبکہ اس پروگرام میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ، ماما قدیربلوچ، سینئر بھارتی صحافی شانتنوگوہاراے، اسٹیٹ میڈیا ایڈوائزر،ڈیفنس اینڈسیکوریٹی ایکسپرٹ جئے بنس سنگھ ،صحافی اورسیکوریٹی ایکسپرٹ نیلیش کنور،جئے سندھ متحدہ محاذکے چیئرمین شفیع برفت،سندھی قوم پرست رہنمامیرسلیم ثنائی ،ایم کیوایم کے رکن الدین تاج سمیت دیگرشرکا نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس پروگرام کا ٹرانسکرپٹ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مرادبلوچ نے ترتیب دی ہے جس کیلئے ہم ان کے تہہ دل سے مشکور ہیں ۔ادارہ نیوز انٹرونشن
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے ’’نیوزانٹرونشن ‘‘کو مبارکباد دے کرکہاتمام دوستوں نے بلوچستان بارے بخوبی اپنی بات رکھی۔ بلوچستان کے حالات ،جدوجہداور یہاں جو تشدد ہو رہا ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم اسے پوری دنیاتک پہنچاسکیں اوربلوچ نے قبضے کے فورابعداپنی آزادی کی جنگ شروع کی تھی ،ہماری کوشش ہے کہ اسی تسلسل کوجاری رکھ کراسی طرح آزادی حاصل کریں جس طرح بنگالی بھائیوں نے بڑی قربانی دے کرآزادی حاصل کی تھی۔
بلوچستان میں 1948سے قابض پاکستان نے دہشت مچا رکھا ہے اور لاکھوں لوگوں کوقتل کیاہے۔یہاں کے وسائل لوٹ رہاہے اوربلوچ کو بزور طاقت اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے بربریت میں وقت کے ساتھ اضافہ کیاجارہاہے۔ ہمارے پارٹی کے بانی چیئرمین غلام محمدبلوچ ، لالامنیربلوچ ، ڈاکٹرمنان بلوچ سمیت ہمارے سینکڑوں دوست اور ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں کو ان بیس سالوں میں شہید کیا گیا ہے۔ ہم چشم دیدگواہ ہیں ، ہم نے ان کی لاشیں اٹھائی ہیں۔ ہم پاکستانی ریاستی دہشت گردی کی انتہاکاسامنا کررہے ہیں ۔
بلوچ ایک ایسی قوم ہے جواپنی سرزمین ،سرزمین کے وسائل سے جنون کی حدتک محبت کرتاہے اوراس کے دفاع کے لیے کئی سالوں سےلڑمرکریہ ثابت کر رہاہے کہ سرزمین کے لیے مرنے کاجذبہ ہم سے کوئی چھین نہیں سکتاہےاورپاکستان کی بربریت اوردہشت گردی کے مقابلے سے نہ ہم پیچھے ہٹے ہیں اورنہ پیچھے ہٹیں گے بلکہ بلوچستان کی چھوٹے بڑے شہروں یاپہاڑوں میں بکھری آبادی ،قربانی کاجذبہ ہرجگہ یکساں موجودہے ۔ ہرسال ہمارے سینکڑوں دوست شہیدہوتے ہیں۔ صرف گزشتہ سال کی بات کریں توپانچ سوپچاس لوگوں کواغواکیاگیاہے۔ کئی دوستوں کی ہمیں لاشیں ملی ہیں ،گزشتہ کئی سالوں سے ہم ان حالات میں جی رہے ہیں ۔
پاکستان کی بلوچوں کے ساتھ ، سندھیوں کے ساتھ ، پشتونوں کے ساتھ دہشت گردانہ پالیسی ہوں یا ہمسائے اورخطے میں دہشت گردی ہو یا مذہبی جنونیت کی فروغ ہو، ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیرتقسیم سے پہلے ایسے نہیں تھا۔ جب ہندوستان کوتقسیم کیاگیاتولاکھوں لوگوں کو ہلاک کردیاگیا۔ یہاں خون کی ندیاں بہائی گئیں توبلوچ اس سے قبل اسی سرزمین پر رہ رہاتھا ، یہاں ایک ایسی دہشت گردی اور مذہبی جنونیت نہیں تھا۔ یہاں تمام قومیں اپنی سرزمینوں پراپنی روایات اورثقافت کے مطابق رہ رہے تھے۔ جب ہندوستان کوتقسیم کوکیاگیا،یہاں کی امن وسلامتی داؤپرلگ گیااور قرتی کی راہیں مسدودہوگئیں۔ تقسیم ہند کا سب سے بڑی خمیارہ بلوچستان کوبھگتنا پڑا۔تب سے ہماری جدوجہدجاری ہے ۔
تقسیم ہندنے نہ صرف بلوچ قوم کی زندگی کو داؤ پرلگادیابلکہ ہندوستان ،افغانستان سمیت پوری دنیاپاکستان کی دہشت گردی پرمبنی پالیسیوں سے متاثرہوا۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی کاواقعہ ہوتاہے اس کے تانے بانے ضرورپاکستان یاپاکستانیوں سے جا ملتے ہیں ۔
تقسیم ہندکو قبول کرکے ہندوستانی قیادت نے بڑی غلطی کی۔ میں سمجھتاہوں کہ سب سے پہلے ہندوستانی قیادت کو اپنی اس غلطی کاتسلیم کرنا چاہئے ۔ تقسیم ہند کی غلطی کونہ صرف تسلیم کرنا بلکہ اس کی درستگی یاتصحیح انتہائی ضروری ہے ۔
ایک وقت تھا کہ بلوچستان کی وسائل جس میں گیس ،سونا،تانباوغیرہ جیسے معدنیات کی اہمیت تھی، آج بلوچستان کی اہمیت تزویراتی ہے۔ یہاں چین کے ساتھ مل کر سی پیک کے نام پر ترقی ڈرامہ رچایاگیاہے۔ آج بلوچ جس مشکل دورسے گزررہاہے اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستانی ظلم وبربریت میں نئی استعمارچین بھی برابرکاشریک ہے ۔ آج بلوچوں کے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں۔ ہمارے لوگ افغانستان، ایران اور یور پ میں مہاجرت کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجودبلوچ اپنی آزادی کی جنگ پاکستان اورچین کے خلاف لڑرہاہے۔ بلوچ اس کی پرواہ نہیں کررہاہے کہ اس کے کتنے لوگ مارے جارہے ہیں ، کتنے گھر جلائے جارہے ہیں ۔
یہاں پاکستان جنگی جرائم کی ارتکاب کررہاہے۔ بلوچ اپنی آزادی کی جنگ لڑرہاہے لیکن ہندوستان سمیت دنیاکے دیگرمہذب ممالک اورعالمی طاقتوں کوانسانیت کے خلاف جرائم پراپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم بارباریہ کہتے ہیں بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی طرح بلوچستان میں بھی ہندوستان کو اپنا ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئے۔ جس طرح بنگالیوں کو پاکستانی ظلم وجبرسے نجات کے لیے ہندوستان نے مددکی تھی ۔
جب ہم یہ کہتےہیں تواسے ہندوستان وپاکستان کے درمیان جاری مخاصمت کے تناظرمیں دیکھاجاتاہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہندوستان دنیا کی سب بڑی جمہوریت اورایک ذمہ دار ملک اوراس خطے کی بڑی طاقت ہے۔ اس کے ناک کے نیچے انسانیت کو روندا جا رہا ہے۔ یہ ہندوستان اور ہندوستانی مقتدرہ کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے کہ ان کاکردارکیاہے ؟
بلوچستان میں نہ صرف پاکستان بلکہ یہاں چین کی توسیع پسندانہ عزائم ہیں ،بلوچ سرزمین پر گوادر، اوڑمارہ، جیونی میں عسکری مفادات کے لیے بہت بڑے نیول بیس بنارہے ہیں یا انہوں نے ہزاروں لوگوں کو ڈپلوائے کیاہے یابلوچوں کواقلیت میں کیاجارہاہے۔ چین بحربلوچ میں آکربلوچستان کولانچنگ پیڈکے طور پر استعمال کرے توخطے میں طاقت کاتوازن بگڑ جاتاہے تو چین کی بالادستی ہوجاتی ہے تو ہندوستان سمیت دنیاکی سلامتی ومعیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔
حسن دوست بلوچ ،ڈپٹی آرگنائزر ڈائسپورہ کمیٹی بلوچ نیشنل موومنٹ
’’افغانستان کی وفاع بلوچ سرزمین پربرطانوی قبضے کی وجہ بنا‘‘
نیوز انٹرونشن کا بہت بہت شکریہ کہ انہوں نے اس اسپیس میں ہمیں بولنے کا موقع دیا۔ میں اپنے اور اپنے پارٹی کی طرف سے نیوز انٹرونشن کے تین سال مکمل ہونے پر مبارک باد پیش کرتاہوں۔ اکثر سالگرے میں کیک کاٹا جاتا ہے یا کچھ اور فنکشن جو ڈانس وغیرہ ہوتاہے لیکن آپ لوگوں کی بڑی بڑی مہربانی جو اس اہم موقع پر مظلوم قوم کو بولنےاور سننے کا موقع فراہم کردیا۔ بلوچستان کااصل مسئلہ قبضہ ہے۔ میں تاریخی پس منظر میں تھوڑا بول دوں تو میں بہت دور جانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ چھ ہزارسال یامہرگڑھ کے بجائے میں 1820سے شروع کرتاہوں جہاں سے بلوچوں پر آفت آ گری ،وہ کچھ اس طرح ہے کہ جب سنٹرل ایشیا کی طرف یہاں سےانگلینڈ اور وہاں سے روس کی پہنچنے کی خواہش اورکوشش سے بلوچ قوم کی بدقسمتی شروع ہوتی ہے۔ جب روس نے تاجکستان ، ازبکستان یا سنٹرل ایشیا کی طرف سے افغانستان تک پہنچنا تھا جس کامقصدسنٹرل ایشیاء کو اپنے کنٹرول میں رکھنا تھا، اس پیش قدمی سے انگریز کو خطرہ محسوس ہوا توانگریز کے لیے افغانستان ہی چوائس بنا۔ انگریزنے بولان اور کوئٹہ کے راستے بلوچستان سے گزرکرافغانستان تک پہنچنے کافیصلہ کیا۔ انگریزکاحدف بلوچستان پرقبضہ یاحملہ نہیں تھا لیکن بلوچ حاکم نے انگریز کو اپنے ہمسائے(افغانستان) پر اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت نہیں دی اور جب انگریز نے افغانستان کی جانب پیش قدمی کی تو بلوچ نے انگریز پرحملوں کا آغاز کردیا۔ بلوچستان کی سرزمین کو افغانستان پرچڑھائی کے لیے استعمال کی اجازت نہ دے کربلوچ نے انگریزکا دشمنی مول لی اور یہی بات بلوچستان پر انگریزی قبضے کی بنیادی وجہ بنا۔ ہم پرقبضے کی بنیادی سبب اپنے ہمسائے کی دفاع تھا۔
شانتنوں گوہارائے
’’بلوچستان کو اپنی لڑائی اکیلاہی لڑناپڑے گا‘‘
کل رات میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا۔ وہاں بلوچستان کی بات کررہے تھے تو وہاں اسٹوڈنٹس کا یہی کہنا تھا کہ’’ آزادی کے لئے کسی بڑے دیش کے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1971 میں ایسٹ پاکستان کو ہرا کر جو لڑائی بھارت نے جیتی اور وہ بنگلہ دیش کو سونپا گیا تو ایسا ہی لڑائی اگر بھارت جاکر بلوچستان کے لئے کھڑا ہو توحالات کافی بدل سکتے ہیں‘‘
تو پھر میں نے انکو یہ بھی سمجھایا کہ ایسٹ پاکستان کے ساتھ لڑائی اور ویسٹ پاکستان ابھی پورا پاکستان کے ساتھ لڑائی کر کے بلوچستان کو آزاد کرنا یہ بھارت سرکار کی اگر سوچ ہے یا سوچ رہے ہیں میں نہیں جانتا لیکن بلوچستان کے بارے میں بھارت سرکار کو یہ بھی جاننا ہے کہ کافی اہم جگہ ہے اور یہ قتل عام کتنے سالوں سے چلا آ رہا ہے ۔ معلوم نہیں پاکستان کو بلوچستان سے کیاڈرہے ؟ کیونکہ پاکستان کی آبادی تقریبا 240 ملین ہے تو12ملین کا 240 ملین آبادی کے ساتھ تو کوئی ذکر ہی نہیں آتاہے اور بلوچستان اپنے آپ میں ایک بڑا دلچسپ دیش ہے۔ یہاں گیس سونا، تانباسمیت بہت کچھ بڑی مقدارمیں ہیں۔ میں آپ لوگوں کو بتا دوں کہ پاکستان کا آدھا گیس پروڈکشن بلوچستان سے آتا ہے اور بلوچستان کے وسائل سے پاکستان تقریبا ایک یا ڈیڑھ بلین ڈالر ہر سال کماتا ہے ۔
لیکن میرامانناہے کہ بلوچستان کو یہ لڑائی اکیلاہی لڑناپڑے گا کیونکہ اگر بھارت طے نہیں کرتا کہ بھارت کا رول کیا ہوگا یا تواقوام متحدہ کو بلاکے یہ دکھاناپڑے گاکہ اس کے لیے کسی دیش کوسرگرم کرداراداکرنا ہوگا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ گلوبل اقدام ہوگا۔ اگربھارت اقدام اٹھائے ، یہ قتل عام ہورہاہے عالمی میڈیااپنی جگہ انڈین میڈیابھی ایک جملہ نہیں لکھتاہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک دکھ بھری بات ہے ۔ یہ نے بنگلہ دیشی طلباکے دل کی بات آپ لوگوں تک پہنچائی ، بڑی مہربانی ۔
نیلیش کنور
’’بلوچستان کے دوانصافی ہورہی ہے۔دہشت گردی اوردنیاکی خاموشی ‘‘
مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ بلوچستان کے ساتھ دو نا انصافی ہورہی ہے۔ ایک طرف پاکستانی فوج کی دہشت گردی اور دوسری طرف تمام دنیا کی خاموشی۔ یہی دو چیزیں ہیں کہ جس کا پتھر کا بھی دل ہو، پگھل جانا چاہئے لیکن جو حکمران پاکستان میں بیٹھے ہیں جو اسلام آباد میں خاص کر روالپنڈی میں ،انہیں لگتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا – پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے پر، ناانصافیوں کے بارے میں یا بلوچوں کے حق میں جب ہم بولتے ہیں تو پاکستان یا پاکستانی فوج کے آئی ایس پی آر کہتے ہیں یہ انڈیا کا ایجنٹ ہوگا اسی لئےمیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ پاکستانی میڈیا ،پاکستانی حکمران جو بول رہے ہیں ووہی دہراتاہوں کہ یہ انڈیا کے ایجنٹ نہیں پاکستان خودبول رہاہے ۔ پہلی بات پاکستان سرکار نے ایک کمیشن آف انکوائری آن انفورس ڈسپئرنس یعنی انہوں نے ایک ایسا ادارہ بنایا ہے کہ جن لوگوں کو جبراََ لاپتہ کردیا گیا ہے ،ان کے بارے میں جانچ کرنے کا ذمہ سونپا ہے۔
اسی نے یہ قبول کیا ہے کہ پانچ ہزار آدمی گمشدہ ہیں – پانچ ہزار بہت کم ہیں لیکن یہاں دیکھنا ہے کہ ایک جو پاکستان سرکار کی خود بنائی ہوئی آرگنائزیشن ہے اسکی بھی اتنی ہمت نہیں کہ بولے کہ ایسی کوئی بات ہو نہیں رہی۔
دوسری بات کہ بلوچستان میں سرکار کی kill and dump پالیسی کتنی سنگین ہے، آپ کو اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ اگر آپ گوگل میں بلوچستان کانا م لکھے بغیر سرچ کریں وہاں آپ صرف kill and dumpپالیسی لکھیں تو پہلے ٹاپ بیس سرچ آئیں گے کہ ان میں کم از کم اٹھارہ کاحوالہ بلوچستان سے ہوگا۔ گوگل انڈیا کا ایجنٹ نہیں ہے گوگل را کا ایجنٹ نہیں ہے ۔ ابھی پچھلے سال اٹھارہ فروری کو پرائم منسٹرعمران نے اپنے سرکارکوحکم دیاتھا کہ ایک جبری گمشدگی کے خلاف قانون بنایاجائے کیونکہ ایسے لوگ ایسے غائب ہوتے ہیں توان کے فیملی کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ یہ ارادہ بہت نیک ہے مگر یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ لوگ جبراََ غائب کئے جارہے ہیں۔ یہ عمران خان نے خود مانا ہے ۔ اگلے مہینے اکیس مارچ میں عمران خان نے جبری گمشدہ لوگوں کے تین رکنی وفدسے ملاقات کی، ابھی مارچ آنے کو صرف دو مہینے ہیں ،تمام دعووں کے باوجودآج تک کوئی پیش رفت نہیں ہوا ۔
اگلی بات جسے سن کردنیا کے ہر ایک اخبار ہر ایک حکومت ،ہرایک انسان کوایک دم لرزاٹھناچاہئے تھاکہ وہ یہ کہ 2019 کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے جیو نیوز کے حامد میر صاحب کے سوال کے جواب میں کہاتھاکہ ’’ ہم نہیں چاہتے کوئی آدمی غائب ہوجائے لیکن جنگ بہت خوفناک ہوتا ہے اور لڑائی اور عشق میں سب کچھ جائز ہے‘‘۔
عمران خان نے الیکشن کے بعدکہاتھا بلوچ ہمارے بھائی ہیں،پہلے کسی بھی حکومت نے ان پر دھیان نہیں دیا تھا، ہم ان کے ساتھ پارٹنرشپ کریں گے ۔ ٹھیک ایک سال بعد انہی کا ملٹری بولتا ہے کہ لڑائی میں سب جائز ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بلوچ دشمن ہے اور بلوچوں کے ساتھ دشمن جیسا سلوک ہوگا۔ آدمی غائب ہوجائے کوئی فرق نہیں ۔بلوچوں کوایسی باتیں دنیاکے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کوآگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ (پاکستان میں )ایسی باتیں ہو رہی ہیں۔
گوادر میں احتجاج نومبر کے پہلے ہفتے یا دوسرے ہفتے شروع ہوئے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے آکر امن کے ساتھ اپنا دکھ تکلیف لوگوں کو بتائی۔ عمران خان نے اس وقت بلوچوں سے بات نہیں کی کہ ان کے دکھ اورتکلیف کیا ہیں۔ لیکن بیس نومبرکوایک چینی وفدکوبلاکر پورا بھروسہ دلایا کہ گوادر میں جو کام چل رہا ہے، سی پیک میں کوئی کمی بیشی نہیں آئے گی۔ پہلے پاکستان نے کہایہ سب ایجنٹ ہیں جب ان سے نمٹ نہ پائے توان کے انیس شرائط مان لیں۔ ان میں ایک شرط بھی ناجائزنہ تھی۔ بلوچ جہاں جہاں بھی جاتا ہے ان کے اپنے ملک ،اپنے شہر، اپنے قصبے میں ان کی شناخت کی جاتی ہے ، تلاشی لی جاتی ہے ، عورتوں کے ساتھ بے عزتی ہوتی ہے ۔
پاکستان کے اپنے ایک تھنک ٹینک سینٹرفارریسرچ اینڈسیکوریٹی سٹیڈی ( سی آر ایس ایس) کے مطابق دوہزار اکیس میں بلوچستان میں 80% فیصدتشددمیں بڑھوتری ہوئی ہےجوفوج اپنوں اوردشمن میں فرق نہیں جانتاوہ آپ (بلوچوں)کاکیابھلاکرے گا۔
آخرمیں یہ کہوں گاکہ میں آپ لوگوں سے متفق ہوں کہ انڈیاکوآپ لوگوں کی مدد کرنی چاہئے کیونکہ آپ لوگوں پر ظلم ہورہاہے ۔سن 48 سے پاکستان نے آپ لوگوں کے اوپر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد سے پاکستان نے کبھی بھی آپ کو اپنا نہیں سمجھا۔ لیکن اس میں ایک دکت یہ آتی ہے کہ یہ کہنا آسان ہوتا ہے لیکن میرے خیال سے، حالانکہ میں سیاست میں نہیں ہوں، یہ مشکل ہوتا ہے کہ ایسے سپورٹ کیا جائے۔ یہاں اس میں کوئی برا ماننے کی بات یا ناراض ہونے کی بات نہیں۔ دیکھئے ابھی جو نیوز انٹرونشن ہے یہ آپ بلوچوں کا دکھ درداورمسئلہ دنیا کے سامنے لا رہی ہے۔ ہاں مانتا ہوں کہ نیوز انٹرونشن صرف ایک ایسا اخبار ہے جو آپ کے کیس کو زور سے زبردست لے رہا ہے۔ آپ کی حالت سے دنیاکو آگاہ کر رہا ہے۔ لیکن میرا پورا بھروسہ ہے کہ تھوڑا ٹائم دیجئے۔ انڈیا کے اندر بلوچوں پر مظالم اور دہشت گردی کے بارے لوگوں میں جانکاری پھیلے گی تو پبلک کا اتنادباؤہوگا کہ آنے والے دنوں میں سرکار کو بھی اس پر کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے اور اوپر والے سے بھی آپ کی خیریت کی دعا کریں گے۔
ماما قدیربلوچ
’’جب تک جان باقی ہے، ہماری جدوجہدجاری رہے گا۔‘‘
اس وقت میری عمر 82 سال ہے ، تقریباً 14 سال سے لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے جد جہد میں ہوں اور اس میں ہم نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آبادتک لانگ مارچ بھی کیا تھا۔ بلوچستان اورسندھ میں لوگوں نے ہماری بہت پذیرائی کی لیکن پنجاب میں ہمارے ساتھ نہ صرف بدسلوکی کی گئی بلکہ ہمیں ٹرکوں سے کچلنے کی کوشش بھی گئی۔ ہمارے ایک خاتون سمیت دوہمراہ زخمی ہوئیے۔ پنجاب پولیس نے یہ سب دیکھالیکن اس کی ایف آئی آر تک درج نہیں کی۔ یہ سب ہم نے برداشت کیا۔ ہمیں مجبورکیاکہ آپ واپس جائیں۔ ہم نے کہا کہ واپس صرف ہماری لاشیں جائیں گی ۔
انہوں نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کوتالالگاکرہمیں اندر جانے نہیں دیا۔ ہم نے باہر بیٹھ کے پریس کانفرنس کیا۔ اس کے بعد پھر ہم اقوام متحدہ ، یورپی یونین کے ذمہ داراں ، امریکہ سفارت کاروں سے ملے۔ انہیں گمشدہ افرادمسخ لاشوں کی تصاویروفہرست فراہم کی تو حیران ہوگئے ۔ پھر نواز شریف کودباؤ آیا تو اس نے پیغام بھیجاکہ ملاقات کے لیے پیغام بھیجا۔ میں نے یہ پیغام مستردکرکے کہاجب آپ سے اس صورت میں ملاقات کریں کہ آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور آئی جی ایف سی بلوچستان کو بلائیں کیونکہ آپ کے پاس اختیارہی نہیں ہے ۔
آئی ایس آئی نے ہمارے لانگ مارچ کے خلاف پوری ایک ٹی وی چینل خریدلی کہ اس لانگ کے لیے ماما کو ہر کلومیٹرکے لیے ’’را‘‘ ایک لاکھ روپے دیتا ہے۔ تو میں نے کہا آپ ثابت کریں کہ مجھے را کتنا پیسہ دیتا ہے کیونکہ تین ہزار کلومیٹر کا کروڑوں روپے یا اربوں روپے بن جاتے ہیں۔ یہ پیسہ کہاں سے آرہاہے اورکس کے اکاؤنٹ میں جمع ہو رہے ہیں۔
بلوچستان میں اتنا ظلم بربریت چل رہا ہے کہ نہ ہماری مائیں، بہنیں محفوظ ہیں اور نہ ہی ہمارے بچے۔ روزانہ کی بنیاد پرلوگوں کو اٹھانا، ان کو مارنا، ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنا، کبھی اجتماعی قبروں میں دفن کرنامعمول بن چکاہے ۔ اس وقت 50 ہزار چار سو چھتیس ہمارے نوجوان ،سیاسی کارکن اور دانشور، ڈاکٹر، انجینئر جبری لاپتہ ہیں اور ان میں بڑی تعداد خواتین کی ہے ۔
بلوچستان میں پاکستانی فوج خواتین کوریپ کررہاہے ،لوگوں کواجتماعی قبروں میں دفن کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں اتناظلم ہورہاہے کہ کشمیرمیں نہیں ہورہاہے ۔ مجھے دباؤمیں لانے کے لیے میرے بھتیجوں کواٹھایاگیا لیکن جب تک ہم میں جان باقی ہے، جب تک یہ ہمیں نہیں ماریں گے اس وقت تک ہماری جدوجہدجاری رہے گا۔
جئے بنس سنگھ
’’بلوچستان میں جاری قتل عام کے لیے ظلم بہت چھوٹی لفظ ہے وہاں انسانی المیہ ہے‘‘
آج ایک بہت اچھی ڈسکشن سننے کو ملا ہے۔ میں تو اتنا ہی کہوں گاکہ’’ظلمAtrocities چھوٹا لفظ ہے بلوچستان میں جوکچھ ہو رہا ہے ۔یہ ایک انسانی المیہ Human Tragedyہے ۔
ایک بات ماما جی کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مقابلے میں کشمیر میں کوئی ظلم نہیں ہورہاہے، کشمیر میں بھی بہت ظلم ہورہاہے لیکن وہ انڈیا نہیں پاکستان کر رہا ہے۔ انڈیا میں صرف فارن اسٹیٹ اسپانسرڈ ٹرریزم ہے ،کشمیر کے لوگ اس سے کافی دکھی ہیں۔ وہاں بھی پاکستان وہی کر رہا ہے جو پاکستان گلگت بلتستان میں،خیبرپختونخوا، سندھ میں اورسب سے زیادہ بلوچستان میں کر رہا ہے ۔
میرااندازہ ہے کہ بلوچستان کے اوپر جو قہر برس رہا ہے ،اسے ابھی اور بھی بڑھنا ہے کیونکہ سی پیک میں دو توسیع پسندحکومتیں اکھٹے ہیں ۔ چین بھی یہ چاہتا ہے کہ ہر حالت میں سی پیک کامیاب ہو اور چین کی استحصال اور نوآبادی بنانے کاپیمانہ پاکستان سے کہیں زیادہ ہے ۔پاکستان کی گیم جہاں ختم ہوتی ہے وہاں سے چین کی شروع ہوتی ہے۔
آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ چین نے پہلے ہی وہاں پر بہت زیادہ سمندری حیات کی ٹرالنگ شروع کی ہے جس سے بلوچستان کی ماہی گیروں کاروزگارختم ہوگیاہے جس کے خلاف حالیہ دنوں میں چلنے و الے’’گوادر کو حق دو‘‘ سے بس ایک اچھی بات نکلی ہے کہ اس کے بعد پرائم منسٹر عمران خان نے یہ مان لیا تھا کہ چینی ٹرالنگ روکنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔
بہت افسوس کہ بات ہے کہ ایک آزادقوم کے اوپر اتنے مظالم ہورہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان ایک قوم کبھی بنا ہی نہیں۔ میں سمجھتا کہ برطانوی ہندکے فوج میں زیادہ پنجابی تھے۔ جب فوج کا بٹوارا ہوا تو ساری فوج پنجاب کے پاس چلی گئی ، وہاں کے وزیراعظم کو بھی اپنے قبضے میں کرلیا تو وہاں بڑے پیمانے پرقوموں کونوآبادی بنایاگیا۔ پاکستان ایک نوآبادی قوت ہے باقی ساری قومیں اس کی کالونی ہیں ۔
پاکستان کوایک قوم نہیں مانا جاسکتا۔ بلوچستان میں، گلگت بلتستان میں پاکستان جو کررہا ہے یہ اس کی سرزمین بھی نہیں ہے ۔خیبرپختونواجہاں سے عمران خان خود آتے ہیں وہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آئی ڈی پیز بنے جہاں فوج نے دوبڑی فوجی آپریشن کیے ۔
ظلم اور پیسے کی لالچ پاکستان اور پنجاب کی فطرت میں ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اس کے بارے میں ہندوستان کوٹھوس قدم اٹھاناچاہئے اورسب سے پہلے اس کے بارے میں دنیا کو بتانا بہت ضروری ہے۔ میں بھی اپنے ویب سائٹ defence.com میں بلوچستان ، کے پی کے اور گلگت بلتستان پرلکھتاہوں ۔ ہم سب کو مل کر بلوچستان میں انسانی المیے کے خلاف اوربھارت سرکار،اقوام متحدہ اورمغربی اقوام کو مجبور کرناچائیے۔ آج تک أفغانستان کے لیے پاکستان مغربی اقوام کی پاکستان ایک تزویراتی مجبوری تھی، اب امریکہ اورمغربی اقوام کو پاکستان کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،یہ صحیح وقت ہے ۔
شہاب
’’ہم تیس ہزارشہیدوں کی لہوکاقرض لیے چل رہے ہیں ‘‘
تمام مقررین کی باتوں سے اتفاق کرتاہوں ،قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی طرف سے بلوچستان کی آزادی کے سرمچار وں اور دنیا بھرمیں جدوجہد کر نے والے بلوچ بھائیوں کو سرخ سلام پیش کرتا ہوں۔
ہم چیئرمین خلیل بلوچ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تقسیم ہندتاریخ کی سب سے بڑی غلطی ہے اورہمارے قائدالطاف حسین یہ بات کہہ چکے ہیں۔ ہمیں اب اس غلطی کو سدھارنا ہے۔ یہ جو غلطی ہمارے بزرگوں نے کی۔ ہمارے بزرگوں کی اس غلطی کاخمیازہ ہماری تین نسلیں بھگت چکی ہیں۔ اس وقت ہم اپنے کندھوں کے اوپر تیس ہزار سے زیادہ شہیدوں کا لہو کا قرض لے کر چل رہے ہیں ۔ہمارے ہزاروں ساتھی پابند سلاسل ہیں ۔ بلوچوں کی طرح ہمارے سینکڑوں ساتھی اغوا لاپتہ کیے گئے ہیں ۔
ہم اس بات پر متفق ہیں بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخواہ کادکھ سانجھا ہے۔ لہٰذا ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح ایک پلیٹ فارم پرجمع یہ لڑائی لڑسکتے ہیں؟
ہم بار بار اپنا مؤقف رکھ رہے ہیں کہ بھارت کے ارباب اختیارہماری آوازسنیں اوراپناحصہ ڈالیں کیونکہ یہ پنجابی ریاست نہ صرف مظلوم قوموں کے لیے بلکہ پوری دنیاکے لیے ایک ناسورہے۔
سوال:پاکستان آرمی کی دہشت گردی پردنیابالخصوص کینیڈا،یورپ ،انڈیاکی خاموشی پرآپ کے پارٹی کی کیالائحہ عمل ہے ؟
چیئرمین خلیل بلوچ :۔ دیکھیں بلوچستان آج اکیسویں صدی میں کھلی کتاب ہے ۔ہمارے سیاسی ورکرز کو، ہمارے لیڈرز کو کینیڈا میں کریمہ بلوچ کی شہادت کینیڈا، سویڈن میں ساجد بلوچ کی شہادت ہوتی ہے اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموشی معنی خیز ہے۔ بلوچ نیشنل مومنٹ کا اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ ،اقوام متحدہ کے سائیڈ ایونٹ اوراپنے دیگررابطوں کے ذریعے انہیں آگاہی دیتے رہیں گے۔ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آواز اٹھائیں اگروہ لب کشائی نہیں کریں گے تواس کے اثرات ان پربھی پڑیں گے کیونکہ پاکستان کے شر سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ پاکستان میں مظلوم قوم ہوں یا پاکستان کی دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک ، ہمیں مل کردنیاکومجبورکریں کہ وہ پاکستان کوروکے ۔ بلوچ نیشنل مومنٹ وہ تمام ذرائع بروئے کار لائے گی جس سے دنیاکو جھنھجوڈ سکتے ہیں یاجہاں تک ہم اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔
میرسلیم ثنائی
’’سندھ اور بلوچستان جسم اورروح کی مانندہیں‘‘
سندھ اور بلوچستان جسم اورروح کی مانندہیں ،ہمارے ہزاروں سالوں سے تاریخی رشتے ہیں ہم ایک دوسرے کے خوشی غمی میں شامل ہیں اور پاکستان ہمارا مشترکہ دشمن ہے۔ہمارے سرمچاربھی براس کے پلیٹ فارم سے لڑرہے ہیں۔
رکن الدین تاج
’’دنیاکو پاکستان کی صورت میں ایک کرایے کی فوج ملی ہے‘‘
دنیامیں جہاں بھی کوئی واقعہ ہوتی ہے اس کی ایف آئی آربنتی ہے ،مواچ گوٹھ میں ایک قبرستان ہے جس میں ڈھائی لاکھ لوگ دفنادیئے گئے ہیں جس میں اکثریت بلوچ نوجوانوں کی ہے ۔بلوچستان میں غاروں کوقبریں بنادی گئی ہیں ،لوگوں کواجتماعی قبروں میں دفنایاجارہاہے۔ اس میں دنیابھی شریک جرم ہے کیونکہ پاکستان کی صورت میں ایک کرایے کی فوج ملی ہے جس کس کوضرورت ہوتی ہے وہ ڈالردے کرکام کراتے ہیں ۔ نہ دنیابلوچوں کوساتھ دے رہاہے اورنہ ہی اقوام متحدہ ۔
پاکستان کی نوے فیصد آمدنی سندھ سے جاتی ہے ،بلوچستان میں گیس،سونااورتانبے کے ذخائر ہیں بھارت کوپاکستان جیسے ناسورکے خلاف ان مظلوموں کی مددکرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ناسورجہاں پھیلتاہے تووہ حصہ سب سے زیادہ متاثر ہوتاجواس سے جڑاہوتاہے ۔اگراس کابروقت علاج نہیں کیاتوبھارت متاثر ہوگاہی ۔
سوال :۔ آپ سندھ میں جاری تحریک کو آپس میں ملانے کے لیے کیاکرناچاہتے ہیں؟
چیئرمین خلیل بلوچ: دیکھیں ہم بہت کچھ کرناچاہتے ہیں کیونکہ سندھ اوربلوچستان جغرافیائی طورپرآپس میں ملتے ہیں ،ہم بارہاکہہ چکے ہیں کہ پاکستان ہمارامشترکہ دشمن ہے ، پاکستان کے پاس کچھ نہیں ہے وسائل ،زمین اورگرم پانی سندھ اوربلوچستان کاہے ۔ پاکستان اس لیے بربریت کررہاہے کہ بزورطاقت قائم رہ سکے ۔ لہٰذاہمیں پاکستانی بربریت کامقابلہ کرنے لیے آگے بڑھنے ،مشترکہ جدوجہدکے ساتھ ساتھ بہت دورتک سوچنے کی ضرورت ہے ۔
شفیع برفت
’’بلوچ مزاحمت تمام مظلوم قوموں کےلیے ایک مثال اور مشترکہ جدوجہدکے لیے ایک علامت ہے ۔‘‘
آج کاپروگرام بلوچستان پرہے لیکن بلوچ سمیت جوتاریخی قومیں پاکستان کے اندر قید ہیں ہم ان کی تاریخی جدوجہد ،ان کی تکالیف اوران کی مظالم کوالگ بھی نہیں کرسکتے کہ بلوچستان کا مسئلہ سندھ سے الگ ہے یا سندھ کا مسئلہ پشتونوں سے الگ ہے کیونکہ ہم تاریخی قومیں پاکستان کے ظلم جبر غلامی اور ذلت کا شکار ہیں۔
بلوچستان ایک ایسی سرزمین ہے جس کی جدوجہد اور خصوصی طور بلوچ مزاحمت خطے کے اورتمام مظلوم قوموں کےلیے ایک مثال اورجب بلوچ سرمچارپاکستانی فوج کو محاذ پر للکارتا ہے ، وہ مظلوم قوموں کی مشترکہ جدوجہدکے لیے ایک علامت ہے ۔
پنجاب ،پاکستان یا ہم جس خطے میں رہتے ہیں بر صغیر کو جس نفسیات،نفرت،مذہبی جنونیت کے بنیادپر توڑاگیا، جس کو کبھی غزوہ ہند کہتے ہیں اور کبھی دو قومی نظریہ۔ یہ ساری تاریخ بابر سے لے کر محمد بن قاسم اور غزنوی ،غوریوں سے لے کر جتنے بھی حملہ آوار آئے، وہ اسی خاص نفسیاتی جنگ سے وابستہ تھے ،۔ یہ وہی نفسیات تھی جسے انگریز نے ایک سیاسی سازش کا رنگ دیا اورمنظم کرکےبر صغیرکوتقسیم کردیا ۔ پاکستان کی قیام سے لے کر الشمس اور البدر تک یہ وہی نفسیاتی ماحول تھاکہ کسی صورت میں تاریخی قوموں پر مذہب کے نام غلام بنایاجائے ۔
جب پاکستان کی فریم میں بلوچ ،سندھی ،پختون سمیت تاریخی قومیں فناکی جانب بڑھ رہے ہوں وہاں انسانیت کی باتیں چھوٹی رہ جاتی ہیں ۔اسی پنجابی ملٹری نے افغانستان کوتباہ کر دیا۔ آج افغانستان میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں ۔ غزوہ سندھ پاکستان آرمی کی فطرت میں شامل ہے ۔ سندھ میں آئی ایس آئی کی سرپرستی میں حافظ سعیدکوکھلی چھوٹ دے کر ہزاروں مدرسے قائم کیے ہیں۔ سندھ میں بچیوں کی برین واشنگ کی جارہی ہے ۔
بھارت اورسندھ ،بھارت اوربلوچستان کے لیے ایک بات مشترکہ ہے کہ پاکستان ،پاکستان کی دوقومی نظریہ اورپاکستان کی فاشسٹ فوج دشمن ہے ۔ یہ فوج ہندوستان کے خلاف بھی سازشیں کررہاہے ۔ پاکستان نے چین کو گوادر میں اور ہمارے سندھ کے ساحل جزائر پرلاکر بٹھایا ہے۔ پاکستان اور شمالی کوریا کی حکمت عملی یکساں ہیں اور دونوں چین کے تزویراتی اڈے ہیں ۔
گوادرسے لے کرسندھ ساگر تک چین کے نیوی کوبھارت کے خلاف تعینات کیاجارہاہے پاکستان نہ صرف بلوچ،سندھی کادشمن ہے بلکہ بھارت کابھی دشمن ہے ۔ بلوچستان میں نوجوانوں کوہیلی کاپٹروں سے گرایاجارہاہے۔ سندھ میں ہمارے نوجوانوں کوکیمیکل چھڑک کر زندہ جلایاجارہاہے ۔
سندھی اوربلوچ اپنی آزادی کے لیے لڑرہے ہیں۔ ہم کسی بھی احسان نہیں بلکہ اپنافرض نبھا رہے ہیں۔ ہماری امیدیں دنیاسمیت بھارت سےزیادہ وابستہ ہیں۔ اگربھارت ہماری مدد کرے گا تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری منزل آسان ہوجاتی ہے ۔
پروگرام کامکمل ریکارڈنگ اس درج ذیل لنک پرسناجاسکتاہے۔