بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4580 دن ہو گئے
دبی امارات سے گزشتہ دنوں جبری لاپتہ عبدالحفیظ بلوچ کی فیملی بدستور کیمپ میں بیٹھے رہے
آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر بانک آمنہ بلوچ ڈپٹی کنویز عبدالوہاب بلوچ زاہد بارکزئی اور دیگر لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی وی بی ایم کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچ طلبا نوجوانوں سیاسی کارکنوں حقیقت پسند صحافیوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی فورسز خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری طور پر اغوا نماگر فتاریوں جبری گمشدگیوں ان پر سفاکانہ جبر تشدداور شیدکر کے ان مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے جیسے بلوچ نسل کش جنگی جرائم جس قدر بڑھ رہے ہیں اتنا ہی اقوام متحدہ سمیت حق انصاف کے داعی بین الاقوامی قوتوں کی یہاں جنم لینے والے انسانی المیوں پر خاموشی اور بے حسی طویل ہورہی ہے یہ بے حسی صرف پاکستانی سیاست اور أس کی محافظتوں اور سیاسی دیگر حلقوں میں ہی پائی جاتی بلکہ اقوام متحدہ جیسا وہ ادارہ بھی جس کی اساسی دستاویز نکات میں انسانی حقوق کی پا پاسداری ولین ترجیحات قرار پائی تھیں بلوچستان پرآبادیاتی قبضے اور بلوچ نسل کشن ریاستی پالیسیوں سے مسلسل نظریں چرا رہاہے اس کردار سے ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ نے حکمران نو آبادیاتی ریاستوں کے مفادات کے تفظ کی ایسی عینک لگارکھی ہے جس میں أسے استماری جبرتشدداور انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کے شکار وہ متناز عہ خطے نہیں آتے ہیں حالانکہ بلوچستان جنگی کیفیت کا شکارہے أنہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں جہوریت کی بالادستی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے نام پر انتہائی سرگرم ہیں بلوچ قوم درپیش نسل کشی جیسے جنگی جرائم دو ہرامعیار اختیار کیا جا رہا ہے لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں بازیابی یابرآمدگی کے ھتے ہوۓ واقعات کے خلاف اور اپنے پیاروں بحفاظت بازیابی کے لیے متاثرہ لواحقین بوڑھے بچوں اور خواتین سمیت پرامن احتجاج ریلیاں مظاہرے کرتے آرہۓ ہیں ۔