روس میں افغان طالبان کو ایک سفارت کار کی تقرری کی اجازت دے دی گئی ہے۔
افغانستان میں حکمران طالبان کو عالمی سطح پر پہلی مرتبہ ایک ایسی کامیابی مل گئی ہے، جو انہیں اب تک حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ روس وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے اپنے ہاں طالبان کے ایک سفارت کار کی تقرری کی اجازت دے دی ہے۔
افغان دارالحکومت کابل اور روسی دارالحکومت ماسکو سے اتوار دس اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق روس بین الاقوامی برادری کا رکن ایسا پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے اپنے ہاں کابل میں طالبان کی حکومت کے سفارتی نمائندے کی تقرری کی اجازت دے دی ہے۔کابل میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ماسکو میں افغان سفارت خانے کا انتظام باقاعدہ طور پر اب طالبان کے نامزد کردہ سفارت کار کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ماسکو حکومت نے اس سفارت کار کے کاغذات نامزدگی بھی باقاعدہ تسلیم کر لیے ہیں۔
کابل میں ملکی وزارت خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ماسکو میں افغانستان کی سابقہ حکومت کے نامزد کردہ سفیر نے اپنا کام کرنا بند کر دیا تھا۔ اب لیکن طالبان کے نامزد کردہ سفارتی ناظم الامور جمال غاروال نے ماسکو میں اپنی سفارتی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔اسی دوران روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس نے بھی لکھا ہے کہ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے ابھی حال ہی میں کابل میں طالبان حکومت کی طرف سے جمال غاروال کی ماسکو میں افغان ناظم الامور کے طور پر تعیناتی کی منظوری دیتے یوئے ان کی سفارتی اسناد تسلیم کر لی تھیں۔
افغانستان میں گزشتہ برس امریکی فوج کے حتمی انخلا کے دنوں میں جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا تو اس دور کے افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہو گئے تھے۔ اس کے چند روز بعد ہی طالبان نے اپنی ایک باقاعدہ ملک گیر لیکن عبوری حکومت قائم کر دی تھی، جسے انہوں نے تکنیکی طور پر افغانستان کی نگران حکومت کا نام دیا تھا۔ یہی حکومت اب تک کابل میں اقتدار میں ہے۔
طالبان کو دوبارہ اقتدار میں آئے اب تقریباً آٹھ ماہ ہونے کو ہیں مگر ابھی تک کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔ اس پس منظر میں ماسکو کی طرف سے طالبان کے نامزد کردہ سفارت کار جمال غاروال کی افغان ناظم الامور کے طور پر تقرری کی اجازت سخت گیر طالبان کی بین الاقوامی اور سیاسی دونوں سطحوں پر اپنی نوعیت کی پہلی کامیابی ہے۔جب سے ہندو کش کی اس ریاست میں طالبان دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے ہیں، عام افغان باشندوں خاص کر خواتین کے بنیادی انسانی حقوق میں سے کئی ایک بار پھر محدود کیے جا چکے ہیں۔ طالبان نے افغان لڑکیوں کو ابھی تک دوبارہ اسکول جانے کی اجازت نہیں دی اور ملک میں تمام گرلز ہائی اسکول تاحال بند ہیں۔