بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ہفتے کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاج کی کال چاغی نوکنڈی میں مزدور کے قتل اور پر امن مظاہرین پر فائرنگ کے واقعہ سمیت گذشتہ دنوں پنجگور میں داد جان نامی نوجوان کے قتل کے خلاف دی گئی تھی۔ مظاہرے میں بلوچ طلباء کے ساتھ دیگر سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان بھی شریک ہوئیں۔مظاہرین نے واقعہ کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی اور شدید نعرہ بازی کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ چاغی میں پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جب وہ اپنے ایک ساتھی کے قتل کے خلاف انصاف مانگنے کے لئے احتجاج کررہے تھے۔ چاغی واقعہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں بلکہ ایسے ہزاروں واقعات رونماء ہوئے ہیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں آئے روز کسی نہ کسی کو قتل کردیا جاتا ہے اور اس قتل کے پیچھے ریاستی ادارے اور انکے پالے ہوئے وہ ارکان ہوتے ہیں جنہیں علاقہ کا امن امان خراب کرنے لئے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ دو روز قبل پنجگور میں ایک نوجوان داد جان عنایت کو دن دھاڑے گولیا مار کر قتل کردیا گیا ایسے واقعات کو روکنے کے لئے بلوچ قوم کے پاس احتجاج کے سواء کوئی راستہ نہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جاری ایسے مظالم کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھاتے رہینگے۔
انہوں نے کہا کہ چاغی کے عوام کو روزگار و سہولیات دینے کی بجائے ان کو گولیوں سے بوند رہے ہیں۔مقرریں نے مزید کہا کہ چاغی کا سانحہ ریاستی ظلم و جبر نوآبادیاتی پالیسیوں کا تسلسل ہے، کیونکہ یہ ریاست روز اول سے یہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا واحد حل بندوق کی نلی ہے۔
ادھر یکجہتی کمیٹی نے آج واقعہ کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپئین چلانے کا اعلان کیا ہے۔ چاغی واقعے کے خلاف بلوچستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ چاغی واقعہ کی تحقیقات کو فوری جامعہ شکل پہنایا جائے تاکہ سرحد پر محنت مزدوری کرنے والوں کے ساتھ مزید ایسے واقعات رونماء نہ ہو۔