گذشتہ دنوں بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کی جانب سے چین کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ پہ فدائی حملہ کرنے والی شاری بلوچ عرف برمش کی والد کے گفتگو کو بلوچ صحافی کیّا بلوچ شئر کیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میری بیٹی ایک خوش مزاج اور زندہ دل عورت تھیں۔ ہمارا خاندان ابھی تک صدمے میں ہے۔ یہ ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ شاری کسی کی جان لے سکتی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی شاری کے بی ایل اے میں شمولیت کے حوالے سے خبر نہ تھی۔ وہ ایک خوش مزاج لڑکی تھی، اور ہمیں نہیں پتا کہ کونسے عوامل نے اسے یہ اقدام اٹھانے پر مجبور کیا ہوگا۔ نہ تو اس میں کبھی خودکشی کا رجحان تھا اور نہ ہی وہ بنیاد پرست خیالات رکھتی تھی۔ پاکستانی میڈیا میں اس کیخلاف بہت ہی زیادہ پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔
شاری بلوچ کے والد کا کہنا ہے کہ اس کے حوالے سے یہ رپورٹ کہ وہ ذہنی طور پر مستحکم نہیں تھی یا کہ خاندان کے ساتھ اس کے اختلاف تھے یہ تمام جھوٹ اور بے بنیاد باتیں ہیں۔ ہماری آخری ملاقات تین ہفتے قبل کراچی میں ہی ہوئی تھی۔ اس واقعے سے چند روز قبل، اس نے اپنے اہلخانہ سے بات کی تھی اور اس حوالے سے شاری نے کچھ نہیں کہا تھا بلکہ وہ بہت خوش تھی۔
انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ شاری کے بچے کہاں ہیں، بچے اور شاری کا شوہر لاپتہ ہیں، اور ہمارا اْنسے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ حملے کی منصوبہ بندی کس نے کی ہے اور وہ کونسے عوامل تھے جنہوں نے انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔ دونوں ہی سیاسی لوگ تھے لیکن ہم نہیں جانتے تھے وہ بنیاد پرست ہیں۔
شاری بلوچ کے والد کا کہنا ہے کہ میں جانتا تھا کہ شاری جبری گمشدگی، تشدد اور جنگ کے شکار بلوچوں کے اہلخانہ سے ہمدردی رکھتی تھی۔ شاری کے خاوند بھی انہی خیالات کے مالک ہیں۔ میں نے سْنا تھا کہ شاری بہت عرصہ پہلے بی ایس او آزاد کی رکن رہ چکی ہیں۔ وہ ان دنوں ہونے والی ریلیوں میں بھی شرکت کرتی تھی۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں ابھی تک شاری کی میت نہیں ملی۔ حکام کا کہنا ہے کہ ویسے تو خود کش حملہ آوروں کی میتیں اہلخانہ کو واپس نہیں کی جاتی لیکن ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ شاری کی میت ہمیں عید کے بعد فرائم کی جائیگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی حکام کو یہ بھی ڈر ہے کہ شاری کے جنازے میں ہزاروں لوگ آسکتے ہیں، اور اسکا تْربت میں شاندار استقبال ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ابھی تک میت فرائم نہیں کی گئی۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ وہ کونسے عوامل تھے جنہوں نے شاری کو یہ کرنے پر مجبور کیا، اور ہم نے علاقائی حکام کو بھی یہی کہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ شاری مستحکم تھی، خوش مزاج اور دیکھ بال کرنے والی لڑکی تھی۔ وہ سیاسی حوالے سے تجسس کا شکار تھی اور بلوچ قوم کا خیال رکھتی تھی۔ اس نے جو بھی عمل کیا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قیاس آرائیوں، پراپیگنڈہ کرنے اور من گھڑت کہانیاں پھیلانے گریز کریں۔
انہوں نے کہا کہ شاری بلوچ نے کچھ عجیب پیغامات اپنے قریبی خاندان کے لوگوں کو بھیجتے ہوئے کہا تھا کہ“ میری تمام غلطیاں معاف کردیں۔ اہلخانہ اور دوستوں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے وہ عید کی ایڈوانس مبارکباد دے رہی ہے۔