عورت کو اٹھاؤ – ذوالفقار علی زلفی

0
51

بلوچستان کے قصبے “ھوشاپ” کو اس وقت پاکستانی میڈیا میں کسی مجرم کی صورت پیش کیا جارہا ہے ـ یہ قصبہ انتظامی لحاظ سے مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کا حصہ ہے ـ بلوچی زبان کی لسانی تقسیم کے حوالے سے اس قصبے کو مکران کی بجائے رخشان کا حصہ تصور کیا جاتا ہے ـ ھوشاپ چوں کہ مکرانی اور رخشانی لہجے کی سرحد پر واقع ہے اس لئے یہ غالباً بلوچی زبان کے ان دونوں بڑے لہجوں کے اثرات لئے ہوئے ہے سو لسانی لحاظ سے اسے کسی ایک کا مکمل حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا ـ

بلوچی زبان کے قدآور ادیب سید ہاشمی کے مطابق ھوشاپ ندی کے کنارے آباد زرخیز زمین کو کہا جاتا ہے ـ ایک ایسی زمین جو پانی سے لبریز ہو ، پانی جو زندگی ہے ـ

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کے دور میں جب حالیہ بلوچ مزاحمتی تحریک نے سر اٹھایا تو اس کے مراکز کوہ سلیمان کے کاہان و ڈیرہ بگٹی قرار پائے ـ کاہان ؛ بوڑھے فلسفی سردار، خیر بخش مری کا آبائی علاقہ ـ ڈیرہ بگٹی؛ تراتانی کے پہاڑوں میں تاریخ رقم کرنے والے نواب اکبر خان بگٹی کا مسکن ـ سیاسی لحاظ سے خطہِ جھلاوان کا علاقہ وڈّ (غلط اردو املا “وڈھ”) سردار عطااللہ مینگل کے باعث ایک منفرد اہمیت کا حامل رہا ـ

پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے بلوچ جدوجہد کو تین قبائلی سرداروں کی ذاتی خواہشات کا عکس قرار دے کر بگٹی، مری اور مینگل قبائل پر عرصہِ حیات تنگ کرنا شروع کردیا ـ قادر مسوری ، محبت خان مری اور نصیر مینگل جیسے گمنام افراد پاکستانی میڈیا پر بلوچ رہنما کی حیثیت سے پیش کئے جانے لگے ـ

مینگل سردار نے بوجوہ مسلح مزاحمت سے دوری اختیار کئے رکھی ـ اس دوری کے باعث مینگل قبیلے پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا قہر اس طرح نہ ٹوٹا جس طرح دیگر دو قبائل اس کا نشانہ بنے ـ مسلح مزاحمت کو ختم کرنے کے لئے پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے مری اور بگٹی قبائل کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کامیاب کوشش کی، دونوں قبائل شکست و ریخت کا شکار ہوگئے ـ بلوچ مزاحمت نے بہتے ہوئے پانی کی مانند اپنا راستہ تلاش کرنے کی سعی کی ، مسلح تحریک کا ریلا بہتا ہوا آواران پہنچا ـ آواران؛ رخشانی بلوچی کا مکرانی پڑوسی ـ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ اس کے قائد بن گئے ـ

آواران نے مرکزی حیثیت اختیار کرکے مکران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ـ آواران اور مکران کے اہم ترین ضلع؛ کیچ کے درمیان رابطے شروع ہوئے ـ کیچ اور آواران کے درمیان ھوشاپ آتا ہے ـ ھوشاپ جہاں پانی کی بہتات ہے، پانی جو زندگی ہے ـ ھوشاپ کا چھوٹا سا زرخیز قصبہ رفتہ رفتہ بلوچ مزاحمت کا مضبوط حصہ بنتا گیا ـ یہ ایک بتدریج عمل تھا ـ نوآبادیاتی پالیسیوں کا راست ردعمل ـ

پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا نیا مائی باپ چین بنا ـ چین؛ جدید نوآبادیاتی نظام کا سرخیل ـ چین نے سی پیک کا شوشہ چھوڑا ـ بلوچ ساحل وسائل کی لوٹ مار کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ـ گوادر تا رتوڈیرو نوآبادیاتی سڑک بنانے کا آغاز ہوا ـ یہ سڑک ھوشاپ سے گزرنی تھی ـ بلوچ جو دہشت گرد ہوتے ہیں، اس سڑک کو ان کی دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے کیچ تا پنجگور درجنوں دیہات صفحہِ ہستی سے مٹائے گئے ـ ھوشاپ بھی خطرے کی زد میں آگیا، مگر مکمل انہدام سے بچ گیا ـ

“ووٹ کو عزت دو” کے خالق نوازشریف پاکستانی وزیراعظم کا عہدہ لئے 2016 کو ھوشاپ پہنچے ـ پاکستانی فوج نے ھوشاپ کا گھیراؤ کر لیا ـ سڑک کا افتتاح ہوا ـ کسان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے، زمین سے اس کی وابستگی کسی بھی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد سے گہری ہوتی ہے ـ وہ خطرے کو جلد بھانپ جاتا ہے ـ ھوشاپ کے کسان بھی بھانپ گئے ـ کسان نے بلوچ مزاحمت سے رشتہ جوڑ لیا ـ

پاکستانی فوج نے ھوشاپ کو سدھانے کے لئے وہاں فوجی قلعہ تعمیر کیا ـ فوج؛ غلام خطوں میں نوآبادیاتی طاقتوں کی سفیر ہوتی ہے ـ یہ عسکری سفیر ڈپلومیٹک گفت و شنید کا قائل نہیں ہوتا ـ ویسے بھی نوآبادیوں میں بات چیت کرتا کون ہے؟ ـ تضادات کا ابھرنا فطری تھا ـ

اپریل 2021 کو اطلاع آئی؛ ھوشاپ کے کسانوں نے سی پیک سڑک بند کردی ہے ـ پتہ چلا فوجی اہلکاروں نے ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اسے زخمی حالت میں سڑک پر پھینک دیا ہے ـ بقول جنرل نیازی “یہ ممکن نہیں ہے کہ فوجی سپاہی لڑے مرے مشرقی پاکستان میں اور جنسی بھوک مٹانے جہلم جائے”

سال 2021 کا ہی تھا ـ اکتوبر کو فوجی قلعے سے دو معصوم بچوں پر مارٹر گولے فائر کئے گئے ـ دونوں بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ـ دہشت گرد ہی ہوں گے؛ بلوچ جو تھے ـ بچوں کے دادا معصوم لاشوں کا بوجھ اٹھائے انصاف مانگنے کوئٹہ پہنچے ـ ادارہ جاتی مفادات کے تحفظ کے لئے رات گئے کھلنے والی عدالتوں سے انصاف کیا ملتا، حکومت نے موقف اختیار کیا بچے بم سے کھیلتے ہوئے مارے گئے ـ خونِ خاک نشیناں تھا سو رزق خاک ہوا ـ

ھوشاپ اپنے زخم چاٹ ہی رہا تھا کہ رواں سال کے اوائل میں پاکستانی فوج نے ھوشاپ کو دہشت گردوں کی آماجگاہ قرار دے کر کارروائی شروع کردی جسے “آپریشن” کا نام دیا گیا ـ پاکستانی میڈیا کے مطابق اس آپریشن میں دس دہشت گرد ہلاک کئے گئے ـ کسان قصبہ باقاعدہ خطرناک ترین دہشت گردوں کا اڈہ قرار پاچکا تھا ـ

یہ سال بظاہر اپنا خراج لے چکا تھا مگر نوآبادی بنائی گئی سرزمین کے غلام باشندوں کی جان و عزت ہر آن خطرے کی زد پر رہتے ہیں سو یہی ہوا ـ رواں مہینے کی گرم رات کو درجنوں اہلکاروں نے ھوشاپ کے ایک گھر پر دھاوا بولا اور نیند میں ڈوبی خاتون نورجہان بلوچ کو اغوا کرلیا ـ پاکستان کے “آزاد” میڈیا نے اطلاع دی ایرانی سرحد کے قریب ایک چھاپے میں خودکش بمبار خاتون گرفتار کی گئی ہے ـ انہوں نے مزید بتایا خاتون خودکش جیکٹ پہنی ہوئی تھی جسے لیڈی کانسٹیبلوں کی بروقت کارروائی کے باعث استعمال نہیں کیا جاسکا ـ ان کے مطابق خاتون کسی چینی کانوائے پر حملہ کرنے والی تھی ـ بتایا گیا گھر سے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ـ

سمجھ نہیں آیا خاتون نے خودکش جیکٹ پہن کر سونے کا فیصلہ کیوں کیا ـ آج تک کبھی نہ سنا کسی بمبار نے جیکٹ پہن کر سونے کی کوشش کی ہو ـ سمجھ تو یہ بھی نہیں آیا فوجی قلعے کے برابر میں بیٹھ کر کون احمق ایسا منصوبہ بنائے گی ـ بلوچ دہشت گرد کیا اتنا کند ذہن ہے کہ بھاری مقدار میں اسلحہ رکھنے کے باوجود بڑے آرام سے گرفتاری دے دے؟ ـ وہ بھی ایک ایسی خاتون جو بقول ان کے مرنے کا فیصلہ کرچکی ہے ـ

واقفانِ حال کے مطابق خاتون کے متعدد قریبی رشتے دار مسلح مزاحمت کا حصہ ہیں ـ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یقیناً یہ بلوچ دہشت گرد کو بلیک میل کرنے کا حربہ ہے ـ سالوں قبل ایک بگٹی سرمچار کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کرکے اسے سرینڈر نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی ـ بگٹی سرمچار عزت لٹنے کے خوف سے سرینڈر ہوا پھر اپنے ہی سابق ساتھیوں کے ہاتھوں غدار قرار پاکر مارا گیا ـ کاش کوئی منی رتنم اس پر فلم ہی بنا دے ـ

ایک ہندی فلم “بلیک فرائیڈے” میں ممبئی پولیس جب مسلم دہشت گردوں کو پرتشدد طریقوں سے توڑنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو افسر کہتا ہے “یہ نظریاتی لوگ ہیں، ان کو تشدد سے توڑنا ممکن نہیں ہے، ان کی عورتوں کو اٹھاؤ، انہیں بے عزت کرو، تب یہ ٹوٹ جائیں گے” ـ پھر آگے یہی ہوتا ہے ـ

جنگوں میں عورت اور بچے کمزور ترین فریق ہوتے ہیں ـ جیسے جنرل نیازی اپنے سپاہیوں سے دریافت کرتا تھا ” تمہارا آج کا اسکور کیا یے؟” یعنی تم نے آج کتنی بنگالی خواتین کو اپنی مردانگی کا عملی سبق پڑھایا ـ شیر محمد مری تو سالوں قبل انکشاف کرچکے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سیکڑوں بلوچ لڑکیاں اغوا کرکے بیچی گئیں ـ

معروف بلوچ دانش ور یوسف نسکندی اکثر بتاتے تھے کہ غوث بخش بزنجو 70 کی دہائی میں سردار عطا اللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری کو مسلح مزاحمت سے منع کرتے تھے، ان کے دلائل میں سے ایک دلیل سوالیہ ہوتی تھی “کیا تم دونوں چاہتے ہو ہماری بھی بہو بیٹیاں بنگالی خواتین کی طرح ننگی کرکے بے توقیر کی جائیں؟” ـ بزنجو غالباً جانتے تھے جنرل نیازی ایک فرد نہیں سوچ کا نام ہے ـ ایک ایسی سوچ جس کے دھارے پنڈی سے پھوٹتے ہیں ـ

بلوچ صرف دعا کرسکتا ہے “اللہ ہماری ماں نورجہان بلوچ سمیت ہر عورت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے” ـ

نورجہان بلوچ کے ساتھ کیا ہوگا ، بلوچ نہیں جانتا ـ نوآبادیاتی نظام کی ساخت اور حرکت سے واقف اہلِ دانش یقیناً جانتے ہوں گے ـ عورت اٹھتی رہی ہے اور اٹھتی رہے گی ـ

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں