پاکستان کے صوبے سندھ کے راجدانی کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے ملزم کی کراچی سینٹرل جیل میں پراسرار طور پر موت ہوگئی۔جن کی لاش پولیس حکام نے لواحقین کے حوالے کردی۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔
چینی قونصلیٹ پر کراچی میں حملے کے الزام میں زیر حراست عارف کی پراسرار موت کے بعد ان کی لاش پولیس نے کوئٹہ منتقل کرکے ان کے لواحقین کے حوالے کی ہے۔خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں جیل میں زہر دیکر قتل کیا گیا ہے جبکہ ان کے جسم پر تشدد کے بھی نشانات موجود ہیں۔
عارف ولد عبدالقادر کراچی میں اپنا گیراج چلاتا تھا، جبکہ اس کا بنیادی تعلق کوئٹہ سے ہیں۔ عارف عبدالقادر بلوچ لبریشن آرمی کے سابق سربراہ جنرل اسلم بلوچ کا کزن تھا۔ عارف عبدالقادر کی گرفتاری 24 دسمبر 2018 کو پاکستانی حکام نے کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے سہولت کار کے طور پر ظاہر کی تھی۔گذشتہ سالوں سے وہ سینٹرل جیل میں قید تھا جبکہ ان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ تاہم اس میں عدم ثبوت کے بنا پر پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
نومبر 2018 میں تین حملہ آوروں نے کراچی میں قائم چینی قونصلیٹ پر حملہ کیا، حملے کی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔ تنظیم نے بیان میں کہا کہ یہ کاروائی بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے تین فدائین نے انجام دی۔
اس کیس میں نوجوان حسنین بلوچ کی گرفتاری بھی ظاہر کی گئی اور ان پر سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جبکہ حسنین بلوچ کو 30 نومبر 2018 کو کوئٹہ سے ان کے گھر سے بھائی اور والد سمیت حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
بعدازاں 11 جنوری 2019 کراچی پولیس نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ کراچی قونصل خانے پر حملے میں ملوث پانچ افراد گرفتار کیئے گئے ہیں جن میں 14 سالہ حسنین بلوچ شامل ہیں۔
اسی طرح 3 جولائی 2019 کو پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ چینی قونصلیت کے ملزم راشد حسین کو شارجہ سے گرفتار کرکے پاکستان منتقل کردیا گیا ہے۔ راشد کو مذکورہ سال جنوری میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا جس کی گرفتاری کا انکشاف محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ڈی آئی جی عبد اللہ شیخ نے کیا تھا۔