مقبوضہ گلگت بلتستان اور چترال میں خواتین کے قتل کی وارداتوں میں اضافے

0
71

گزشتہ چند سالوں سے گلگت بلتستان اور چترال میں پڑھے لکھے خواتین میں مبینہ خودکشی اور قتل کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ

دیکھنے میں آرہا ہے مگر بطور معاشرہ ابھی تک ان واقعات کے پیچھے کار فرما محرکات کو سمجھنے کی قطعی کوشش نہیں کی یا پھر جان بوجھ کر ان محرکات سے چشم پوشی اختیار کی ہے جس کی بدولت آج پورے خطے میں یہ ناسور لاوا بن کر پھوٹنے لگا ہے۔مجموعی رویہ پھر بھی نہایت افسوسناک اور مایوس کن ہیں۔ جب بھی کسی بہن یا کسی بھائی کی مبینہ خودکشی کی خبر ملتی ہے تو بڑی آسانی سے کہا جاتا ہے کہ “فلاں نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی”اور تعزیت اور افسوس کے روایتی کلمات کے ساتھ سارا ملبہ خودکشی کرنے والے پر ڈال کر خود کو ہر چیز سے بری الذمہ سمجھا جاتا ہے۔ غلام سماج کے افراد ان تلخ حقائق کو جاننے اور ان کے تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے آئے روز ایسے انسانیت سوز واقعات کا تسلسل ایک دائرے کی شکل میں جاری رہتا ہے۔

اگرؤ ماضی کے واقعات کا جائزہ لیں تو ان میں زیادہ تر قتل کے ہوتے ہیں جنہیں ہمارے سماج میں علاقہ، مذہب اور قومیت کی غیرت کا مسئلہ بنا کر سفید بے داغ چادر میں لپیٹ کر خودکشی کا نام دیا جاتا ہے۔

آج یہ تحریر لکھنے کا مقصد اس واقعہ کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی ایک کوشش ہے جس نے نہ صرف ہنزہ گوجال بلکہ گلگت بلتستان اور پاکستان بھر کے انسان دوست اور باضمیر حلقوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا اور گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں پہلی بار وسیع پیمانے پر صدائے احتجاج بلند کیا گیا۔ قومی و عالمی میڈیا نے اس کو اْجاگر کیا۔ میرا اشارہ ادیبہ کے قتل کی طرف ہے، ادیبہ کی موت کو ایک برس ہو گیا ہے۔ پچھلے سال 6 جون کی صبح ان کی لاش دریا کے کنارے ملی تھی جسے اس کے سسرال والوں نے بڑی بے دردی سے قتل کر کے دریا کے کنارے پھینک دی تھی۔ اس واقعہ کو خودکشی کا نام دینے کی ناکام کوشش کی گئی لیکن جب ہم نے قانونی راستہ اپناتے ہوئے پولیس میں رپورٹ درج کی تو مقتولہ کے سسرال والوں نے دوران تفتیش مجسٹریٹ کے سامنے اقبال جرم کرلیا۔ اب ہمارا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور ہم عدالت سے انصاف کی امید رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ ادیبہ کی شادی کو صرف سات مہینے گزرے تھے۔ مہذب معاشروں میں ہر ماں باپ اپنی بیٹیوں کو نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ گھر سے رخصت کرتے ہیں۔ اسی طرح ادیبہ بھی آنکھوں میں ایک نئی زندگی کا خواب سجائے رخصت ہو گئی تھی مگر اسے کیا معلوم تھا کہ یہ نئی زندگی اْس کے لئے موت کا کنواں بن جائے گی۔ اس ایک سال کے دوران میرا خاندان جس ذہنی، مالی اور روحانی اذیت میرے سے گزر رہا ہے وہ صرف مجھے ہی معلوم ہے یا وہی لوگ اس کا اندازہ کر سکتے ہیں جو اس قسم کے سانحہ سے گزر چکے ہیں۔ ملزمان کی جانب سے اب بھی اسکے گھر والوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور کیس میں تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ نام نہاد مہذب معاشرے میں ایک مصنوعی امن پسندی، کا خول چڑھا کے مصلحت کے نام پر اس قسم کے جرائم کو چھپایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں مجرموں کو اس قسم کے جرائم کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور معصوم زندگیاں اس ڈھکوسلے امن پسندی، منافقت اور فرسودہ اقدار کے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال میں ایک سال میں تقریباً دو درجن خواتین اور نوجوان “خود کشی”جیسے انتہائی قدم اٹھاتے ہیں یا گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ اگرچہ خواندگی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے لیکن ذہنی طور پر ابھی بھی فرسودہ پدر شاہی رسم و رواج اور ظلم و جبر پر مبنی ہے جس کے شکار خواتین ہو رہی ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے بہت ہی متحرک سیاسی و سماجی کارکن عنایت بیگ نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے ایک مہینے کے دوران ضلع غذر میں دس مبینہ خودکشی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ یہ خبر پورے گلگت بلتستان کے حکومتی اور سماجی و مذہبی اداروں کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ اگر جلد ان واقعات کا تدارک نہیں کیا گیا تو پورے خطے پر اس کے بہت ہی بھیانک اثرات مرتب ہونگے۔ آج اس واقعے کے بعد ہم اپنی بیٹی کو رو رہے ہیں، کل خدانخواستہ کوئی اور ہماری جگہ ہوسکتا ہے۔ خودکشی اور قتل کے اس آسیب کو ابھی سے لگام دینا چاہیے ورنہ گھر اجڑتے رہیں گے، بیٹیاں مرتی رہیں گی اور تباہی ہمارا مقدر بنے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں