لاپتہ بلوچ طالب علم حفیظ بلوچ منظر عام پر آنے کے بعد ضلع نصیر آباد کے سینٹرل جیل میں تھے، عدالت سے بریت کے بعد گذشتہ روز ان کو جیل سے رہا کردیا گیا۔خضدار سے تعلق رکھنے والے طالب علم حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کی اطلاع رواں سال 8 فروری کو موصول ہوئی تھی جبکہ ایک ماہ لاپتہ رہنے کے بعد 15 مارچ کو بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے طالب علم کی حراست میں لئے جانے کی تصدیق سی ٹی ڈی نے کی تھی-
حفیظ بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں میں ایم فل کے طالب علم ہیں اور جب انھیں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تو وہ اس وقت ایم فل کے فائنل سمسٹر میں تھے۔گذشتہ روز جیل سے رہائی کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اردو کو اپنی جبری گمشدگی کی تفصیلات بتاتے ہوئے طالب علم کا کہنا تھا کہ ان کی پہلی ترجیح تعلیم کا سلسلہ وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں سے منقطع ہوگیا تھا گھر والوں سے ملنے اور چند روز آرام کے بعد قائد اعظم یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کا دوبارہ آغاز کریں گے۔
حفیظ نے بتایا کہ لوگوں کی زندگی میں سب زیادہ خوشی کا دن ان کی شادی کا یا خاندان میں کسی خوشی کا ہے اور میری زندگی میں سب سے زیادہ خوشی کا دن آج جیل سے رہائی کا ہے اگرچہ ان کے لیے اپنی پرانی زندگی میں جانا مشکل ہوگا۔
طالب علم کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جبری گمشدگی کے واقعے نے مجھے بدل دیا ہے مجھے اپنی پڑھائی تو کیا اپنے بہت سے دوستوں کے چہرے یاد نہیں رہے میرے ذہن میں ہر وقت بس یہی سوال ہوتا تھا کہ آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا میں ایک طالب علم تھا۔ پہلے مجھے لاپتہ کیا گیا اس کے بعد دہشت گردی کا مقدمہ قائم کر کے مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا۔
رہائی پانے والے طالب علم کا کہنا تھا کہ یہ میرے لیے ایک اذیت ناک صورتحال تھی جس سے مجھے آج نجات مل گئی-
یاد رہے حفیظ بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف طلباء تنظیموں کی جانب سے بلوچستان سمیت کراچی اور پنجاب کے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے جبکہ طلباء کی جانب سے اسلام آباد نینشل پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ بھی قائم گئی تھی اسی دوران کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) بلوچستان نے 15مارچ کو حفیظ بلوچ کی بلوچستان کے علاقے جھل مگسی سے گرفتاری ظاہر کرتے ہوئے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔سی ٹی ڈی بلوچستان نے دعویٰ کیا تھا کہ عبدالحفیظ بلوچ سے 15 مارچ کو دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ان کے خلاف سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’مخبر خاص نے اطلاع دی کی ایک نوجوان جو کالعدم تنظیم بی ایل اے اسلم گروپ کا کارکن ہے ایک سیاہ بیگ اٹھائے مشکوک حالت میں جھل مگسی کے راستے سے جعفر آباد کی جانب پیدل آ رہا ہے۔
بدھ کے روز عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرکے اس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور جمعرات کو اس پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کیجج محمد علی مبین نے حفیظ بلوچ کو تمام مقدمات سے بری کرتے ہوئے ان کو رہا کرنے کا حکم دیا۔طالب علم کے وکیل کے مطابق استغاثہ نے حفیظ بلوچ پر جو بھی الزامات لگائے تھے عدالت میں وہ ان کو ثابت نہیں کر سکے جس پر عدالت نے ان کو تمام الزامات سے بری کردیا ہے۔