پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے زیر انتظام جموں کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت پاکستان کی وفاقی واٹر اینڈ پاور اتھارٹی (واپڈا) سے 5 ارب روپے سالانہ مالیت کی بجلی خرید کر صارفین کو 25 ارب روپے میں فروخت کرتی ہے۔ یوں بجلی کی ترسیل کے ذریعے سے سالانہ حکومت 20 ارب روپے منافع حاصل کرتی ہے۔ جس کا بیشتر حصہ کرپٹ سیاست دانوں اور فوجی جرنلوں کو جاتا ہے۔
اس خطے میں لگنے والے پن بجلی منصوبوں میں سے صرف ایک (منگلا ڈیم) کے واٹر یوز چارجز واپڈا کی طرف سے مقامی کٹھ پتلی حکومت کو ادا کئے جا رہے ہیں۔ 15 پیسے فی یونٹ واٹر یوز چارجز کے تحت سالانہ 700 ملین روپے کی رقم حکومت کو حاصل ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان کے باقی صوبوں میں پن بجلی منصوبوں کے واٹر یوز چارجز 1 روپے 15 پیسے مقرر ہیں۔ اسی طرح بجلی بلات میں صارفین 3075.551 ملین روپے مختلف ٹیکسوں کی مد میں بھی حکومت کو فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح صرف بجلی کے بلات سے وصول ہونے والی رقم تقریباً 29 ارب روپے سالانہ تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ کٹھ پتلی حکومت کو اس بجلی کے عوض محض 5 ارب روپے واپڈا کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بجلی کی ضرورت محض 350 میگا واٹ ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے تک بڑھ چکا ہے۔
پاکستانی زیر انتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں ہائیڈل منصوبہ جات سے اس وقت 3 ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ بجلی پاکستان کے نیشنل گرڈ میں جا رہی ہے، جبکہ دیگر کئی منصوبہ جات پر تعمیراتی کام جاری ہے۔ ہائیڈل منصوبہ جات کیلئے تعمیر ہونے والے ڈیموں کیلئے دریاؤں کا رخ موڑے جانے کی وجہ سے اس خطہ میں درجہ حرارت میں اضافے سمیت دیگر ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسموں کی شدت، پینے کے صاف پانی سمیت دیگر نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔بجلی کی ترسیل کا نظام بھی انتہائی بوسیدہ ہونے کے باعث معمولی ہوا چلنے یا بارش کی صورت کئی کئی گھنٹوں تک بجلی کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔ ٹرپنگ اور سپارکنگ کے باعث ہونے والے لائن لاسز کا بوجھ بھی عام صارفین پر ڈالا جاتا ہے۔
بجلی کی ترسیل کیلئے قائم محکمہ برقیات میں عملہ کی کمی، حفاظتی سازو سامان کی عدم موجودگی سمیت دیگر مسائل کے باعث وہ استعداد کار ہی موجود نہیں ہے کہ بجلی کی ہمہ وقت ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ اس کے علاوہ حکومتی مداخلت اور کرپشن کے باعث صارفین کو مزید مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔
محکمہ برقیات کے ایک ذمہ دارنے بتایا کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں لگائے گئے 50 میگا واٹ سے زائد کے تمام ہائیڈل منصوبوں کی بجلی براہ راست نیشنل گرڈ اسٹیشن میں جاتی ہے۔ واپڈا اس خطے کی حکومت کو 2.59 پیسے فی یونٹ بجلی فراہم کرتا ہے، تاہم 1997ء میں نیپرا کے قیام کے وقت بنائے گئے قواعد کے مطابق پورے پاکستان اور زیر انتظام علاقوں کیلئے بجلی کی فروخت کا ایک ہی ٹیرف مقرر کیا گیا تھا۔
انکا کہنا تھا کہ اس وقت کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے الیکٹرک) کے علاوہ پورے پاکستان میں ایک ہی ٹیرف نافذ العمل ہے۔ اسی وجہ سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں محکمہ برقیات بھی اسی ٹیرف کے مطابق بجلی کے بل وصول کر رہا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ واٹر یوز چارجز بڑھانے کے حوالے سے نیپرا کے ساتھ بات چیت کی گئی تھی۔ تاہم اس صورت میں کہا گیا تھا کہ اگر واٹر یوز چارجز 1 روپے 15 پیسے کئے جاتے ہیں، تو اس صورت میں بجلی 2.59 روپے کی بجائے 10 سے 12 روپے فی یونٹ فراہم کی جائیگی۔ ایسی صورت میں فائدے سے زیادہ نقصان کا احتمال ہے، اس وجہ سے یہ بات چیت تاحال آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔
مظفر آباد میں انجمن تاجران اور سول سوسائٹی کی طرف سے مقامی گرڈ اسٹیشن کے قیام اور بجلی کی ضرورت پورا کرنے کیلئے پہلے سے لگے منصوبوں سے خطے کی ضرورت کے مطابق بجلی مقامی گرڈ کو فراہم کرنے کے بعداضافی بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کرنے کا مطالبہ پر احتجاجی تحریک کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔
ایک سال میں واپڈا سے 5 ارب کی بجلی خرید کر شہریوں سے 25 ارب وصول کرنے والا محکمہ برقیات لوڈ شیڈنگ بارے کسی کوبھی تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔
جب گزشتہ حکومتی ادوار کے دوران نیلم جہلم۔ منگلا۔ پترینڈ جیسے منصوبوں سے ہزاروں میگا واٹ بجلی پیدا کر کے لیجائی جانے کی اجازت دی گئی ہو اور مقامی لوگوں کو لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے میں جان بوجھ کر ڈالا گیا ہو تو پھر لوگ تو احتجاج کریں گے۔ موجودہ حکومت نیاس اہم ترین معاملیکے مستقل حل کیلئے اگر اب بھی سنجیدگی اور دلچسپی نہ دکھائی تو سرکاری پہیہ جام ہو سکتا ہے۔