مقبوضہ بلوچستان:سانحہ زیارت کیخلاف بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کا دھرنا7دنوں سے جاری

0
101

مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوئس کیسامنے دھرنے کا آج ساتواں دن ہے۔

دھرنے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور اتحادی تنظیموں کے کارکنان سمیت جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی کثیر تعداد شریک ہیں۔

دھرنے میں کل متحدہ عرب امارات سے جبری لاپتہ بلوچ سماجی کارکن راشد حسین کی والدہ نے شرکت کی، جس کی حالیہ دنوں آنکھوں کے آپریشن ہوئے ہیں جس کی طبیعت اور آنکھوں کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اسے گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا تھا لیکن بیٹے کی جدائی کے غم میں وہ گھر نہیں بیٹھ سکتے۔

جبکہ گزشتہ روز نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما کبیر محمد شہی سمیت مختلف سیاسی اور سماجی تنظیموں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ وہ زیارت میں جبری لاپتہ بلوچوں کے فورسز کے ہاتھوں قتل عام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اسے ریاستی جبر اور بلوچ نسل کشی کا تسلسُل سمجھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں زیارت میں پاکستانی فورسز نے جعلی آپریشن کے نام پر پہلے سے جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کرکے انکی لاشیں پھینکے تھے، جنکے لواحقین انکی بازیابی کیلئے مسلسل احتجاج کرتے آ رہے تھے، اسکے باوجود ان کو شہید کرکے ان کی وابستگی کسی مسلح تنظیم سے ظاہر کی جو ریاستی بوکھلاہٹ سمجھا جاتا ہے، ریاستی اداروں اور فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کے فیک انکاؤنٹر میں ماورائے قانون قتل کے خلاف اور جبری لاپتہ افراد کے زندگیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر پچھلے سات دنوں سے بلوچ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین دوسرے تنظیموں کے کارکنان گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔

دھرنے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق آج حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار ہائی کورٹ آف بلوچستان کو ایک لیٹر لکھا گیا ہے جس کی کاپی ہمیں موصول ہوئی ہے جس میں ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے لکھا گیا ہے جس کا عنوان ہے کہ ”اس بات کی تحقیقات کی جائے کہ آیا زیارت میں قتل ہونے والے افراد پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد تھے کہ نہیں ”

واضح رہے کہ دھرنا کے شرکاء اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے تین سادہ سے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ زیارت سانحہ پہ جوڈیشل کمیشن قائم کی جائے، تمام لاپتہ افراد کی رہائی جلد از جلد ممکن بنائی جائے اور تمام لاپتہ افراد کے لواحقین کو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ انکے جبری لاپتہ زیر حراست لوگ جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنائے جائیں گے۔

بلوچ جبری لاپتہ افراد کے فیملیز کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کیا ہوا ہے اور فیملیز اپنے گھر نہیں بیٹھ سکتے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں