بلوچ نیشنل موومنٹ کے انسانی حقوق کے ادارے پانک نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی ماہ جولائی کی رپورٹ کی جاری کی ہے۔ اس حوالے سے ریڈیو زرمبش اردو کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر آن لائن پریس کانفرنس بھی کی گئی۔
پریس کانفرنس میں بی این ایم کے ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹر ناظر نور نے ماہ جولائی میں انسانی حقوق کے حوالے سے پیش آمدہ اہم واقعات و حوادث بیان کیے۔
پانک کی رپورٹ کے مطابق ماہ جولائی میں پاکستانی فوج نے 46 افراد کو جبری لاپتہ کیا ان میں 28 افراد کو تشدد کرکے رہا کردیا گیا جبکہ 18 تاحال جبری لاپتہ ہیں۔ 11 افراد کا حراستی قتل کیا گیا جن میں سات افراد کی شناخت ان کے لواحقین نے کیے جو پہلے ہی سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں جبری گمشدہ کیے گئے تھے۔ پاکستانی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں میں دو افراد ہلاک اور 6 شدید زخمی ہوئے۔پاکستانی فوج کے کرایے کے قاتلوں نے افغانستان میں ایک بلوچ پناہ گزین کا اعلانیہ قتل کیا جبکہ آزربائیجان میں ایک پناہ گزین کی پراسرار حالات میں موت واقع ہوئی، لواحقین نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی موت کی وجہ قتل ہوسکتا ہے۔ڈاکٹر ناظر نور نے کہا گذشتہ مہینے بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے حراستی قتل کے حوالے سے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا گوکہ بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی متعدد واقعات میں پاکستانی فوج کی ماتحت پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے جھوٹے مقابلوں میں کئی جبری افراد کو قتل کیا تھا لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم کی کارروائی کے فوری ردعمل میں 11 جبری لاپتہ افراد کا حراستی قتل کرکے انھیں حملہ آور قرار دیا گیا۔
انھوں نے کہا سانحہ زیارت کے بعد حکومت کے دعوؤں اور حراست میں قتل کیے گئے افراد کی شناخت میں ریاستی اداروں کی عدم دلچسپی اور عدم تعاون نے اس جعلی مقابلے میں قتل کیے گئے افراد کی شناخت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ان لاشوں میں سے ایک لاش کی شناخت ’انجینئر ظہیر بلوچ‘ کے نام سے کی گئی۔انجینئر ظہیر بلوچ کی بہن عظمی بلوچ کے مطابق ان کے بھائی انجنیئرظہیر بلوچ کو 07 اکتوبر 2021 کو ان کے آفس ’اسمارٹ ویز کنسلٹینسی پرائیوٹ لمیٹڈ‘ واقع ائرپورٹ سے پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیا۔
”19 جولائی 2022 کو ان کی بہن عظمی بلوچ نے اپنے بھائی کی شہادت کی تصدیق کی۔ ریاستی وزیر ضیاء لانگو نے بھی اپنے پریس کانفرنس میں ظہیر سمیت مذکورہ بالا تمام افراد کی موت کی تصدیق کی اور انھیں ’دہشت گرد‘ قراردیا۔ضیاء لانگو کی پریس کانفرنس اور جعلی مقابلے میں جبری لاپتہ افراد کے قتل کے بعد جبری لاپتہ افراد کے لواحقین مسلسل کئی ہفتوں سے شال میں مختلف مقامات پر احتجاج کر رہے ہیں۔ سرکار نے لواحقین کے احتجاج کے بعد ’سانحہ زیارت‘ کی تحقیق کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا اعلان کیا لیکن اس کے بعد ملٹری اسٹبلشمنٹ متحرک ہوئی اور بلوچستان میں فوج کے حامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔لیکن اس تمام صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 29 جولائی 2022 کو ڈیتھ اسکواڈ کا سرغنہ اور پیپلز پارٹی پاکستان کا بلوچستان میں رہنماء نوراحمد بنگلزھی کے گھر سے ’انجیں ئر ظہیر منظر عام پر آئے۔“‘
انھوں نے کہا نور احمد بنگلزھی نے پاکستانی فوج کی نمائندگی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انجینئر ظہیر کی جبری گمشدگی کا دعوی غلط تھا، وہ اپنی مرضی سے یورپ جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے اور ایران میں قید تھے۔لیکن ایران سے ڈی پورٹ کیے گئے افراد کی لسٹ میں انجینئر ظہیر کا نام شامل ہے اور نہ ہی اب تک انجینئر ظہیر کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہے بلکہ وہ اب بھی ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے قید میں ہیں۔
ڈاکٹر ناظر نور نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ انجنیئر ظہیر کے خاندان پر کوئی دباؤ نہیں اور وہ ایک آزاد شہری کی طرح نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔ان کے ڈیتھ اسکواڈ کے نرغے میں دیے گئے بیان کی جانچ کی جائے اور ساتھ ہی جس میت کو انجنیئرظہیر سمجھ کر دفن کیا گیا اس کا ڈی این اے ٹسٹ کیا جائے۔
انھوں نے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہم درخواست کرتے ہیں انسانی حقوق کے ادارے ان مطالبات ’سانحہ زیارت پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام جبری لا پتہ افراد کی باحفاظت رہائی اور جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو اس بات کی یقین دہانی کہ کسی بھی زیر حراست شخص کو جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔‘ پر عملدرامد کے لیے ریاست پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔پانک کی رپورٹ میں بیرون وطن دو بلوچ پناہ گزین کی موت کا ذکر بھی شامل ہے۔ڈاکٹر ناظر نے رپورٹ کے حوالے سے بتایا 13 جولائی 2022 کو آزربائیجان میں ثاقت کریم کی موت اس سے پہلے دو بلوچ پناہ گزین بلوچ صحافی ساجد حسین اور بی این ایم کی رہنماء کریمہ بلوچ کی طرح پانی میں ڈوب کر ہوا، تینوں اموات میں مشابہت ہے،اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔انھوں نے کہا 19 جولائی 2022 کو جلمب خان ولد خان محمد لانگانی مری کو پاکستانی فوج کے کرایے کے قاتلوں نے علی اعلان ہدف بنا کر قتل کیا۔ہمارا افغان حکومت سیمطالبہ ہے کہ قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے اور افغانستان میں مقیم بلوچ مہاجرین کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدام اٹھائے جائیں۔
انھوں نے کہا تائید شدہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اب تک 129 افراد سیلاب کی وجہ سے ہلاک اور 57 زخمی ہوچکے ہیں، 640 کیلومیٹر کے لگ بھگ سڑک بہہ گئی ہے،13 پل متاثر ہوئے ہیں 2431 سولرپلیٹ ناکارہ ہوچکے ہیں،706 مال مویشیاں ہلاک ہوچکی ہیں،16 ڈیم متاثر ہوئے ہیں اور 197930 ایکٹر پر کھڑی فصلیں ضائع ہوئی ہیں۔11 ہزار 775 مکانات کو نقصان پہنچا جن میں سے 8 ہزار 874 کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ 2 ہزار 901 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوچکے ہیں۔واضح رہے کہ ان اعداد و شمار کو مقامی فلاحی ادارے مستر د کرتے ہیں۔ان کے مطابق نقصان اس سے کئی زیادہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر ناظر نے کہا بلوچستان کے علاقے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے نقصانات الگ ہیں، وہاں بھی جانی ور مالی نقصان ہوا ہے۔اس کے علاوہ شال، مستونگ، کلات، قلعہ سیف اللہ، پشین، ڑوب، لورالائی، خضدار، وڈ، لسبیلہ اور مکران میں انگور، سیب اور کھجور کے باغات کو کروڑوں کی مالیت کا نقصان پہنچا ہے۔مکران سالانہ تقریبا 1 ملین ٹن کھجور پیدا کرتا ہے جنھیں مون سون کے بارشوں سے شدید نقصان پہنچا ہے۔انھوں نے کہا بلوچستان دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جو کہ موسمی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہے۔جبکہ بلوچستان میں غیرملکی مفادات کے لیے بنائے گئے تعمیراتی پروجیکٹس بھی سیلابی ریلوں اور بارش کے پانی کا رخ آبادیوں کی طرف موڑنے کا باعث ہیں۔ سی پیک بھی ان چھوٹے بڑے پروجیکٹس کی فہرست میں شامل ہے جس میں پورے بلوچستان میں سڑکوں جال بچھایا گیا ہے لیکن اس میں مقامی آبادی کے مفاد اور ندیوں کے فطری بہاؤ کو نظرانداز کیا گیا۔جس سے غیرمعمولی بارشوں میں جہاں بلوچستان میں انفراسٹرکچر بری طرح تباہ ہوگیا ہے۔بلکہ قابل کاشت زمینوں، فصلوں، لائیو اسٹاک اور باغات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔حالیہ سیلابی صورتحال میں گوارست، گریشہ ضلع خضدار کے مکینوں نے سی پیک کے خلاف باقاعدہ احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے سی پیک روٹ پر پل کی تعمیر کے وقت ہی متعلقہ حکام سے یہ درخواست کی تھی کہ پل کی اونچائی بڑھائی جائے لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی جس کے باعث غیرمعیاری پل پانی کا بہاؤ برداشت نہ کرسکا اور پانی آبادی کی طرف پلٹ گیا جس سے پورا گاؤں زیر آب آگیا۔تیرتج ضلع آواران میں جہاں سی پیک M8 روٹ زرعی زمینوں کے درمیان گزر رہی ہے بھی سیلابی ریلوں کی آبادی کی طرف موڑنے کی وجہ بنی ہے جس سے گاؤں متاثر ہوا ہے۔
انھوں نے بلوچستان کی موجودہ سیلابی صورتحال میں نقصان کا ذمہ دار ریاستی بد انتظامیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا اس سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بلوچستان کو بڑی پیمانے پر مدد کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں بین الاقوامی ادارے اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ سی پیک کے تحت بننے والے انفراسٹرکچرز اور ڈیموں کی تعمیر سے بلوچستان میں حالیہ سیلابی صورتحال کو بڑھانے میں کردار تو نہیں۔اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ بڑے بڑے ڈیمز جب بارش ہو تو سیلاب کا باعث بنتے ہیں لیکن جب بارشیں نہ ہوں تو بھی بلوچستان کے چھوٹی آبادیوں والے چند شہروں کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ساتھ ہی آبادیوں کا بروقت انخلا نہ ہونا، مسافروں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات نہ کرنا اور متاثرین کی بروقت مدد نہ ہونا بدانتظامی کی نمایاں مثالیں ہیں جو موجودہ سیلابی صورتحال میں اموات میں اضافے کا باعث ہوئے ہیں اس لیے اس صورتحال کو ہم ’ریاستی بد انتظامی کی تباہ کاریاں‘ قرار دیتے ہیں۔