پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کیخلاف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی چارج شیٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے وعدہ خلافی کر کے پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کیں۔
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح رواں برس بھی برقرار رہے گی اور اشیائے خوردنوش اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے سے عوامی سطح پر احتجاج اور مظاہرے ہو سکتے ہیں اور عدم استحکام کے باعث پروگرام کے پالیسی فیصلوں پر عملدرآمد اور مالیاتی ایڈجسٹمنٹ حکمت عملی متاثر ہو سکتی ہے۔
یوکرین بحران اور عالمی سطح پر اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور توانائی کی قیمتیں بڑھنے اور کرنسی کی قد ر میں کمی سے پاکستان میں رواں برس مہنگائی میں اضافہ ہوگا جبکہ سخت مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کے باعث آئند ہ مالی سال 2023-24میں مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔
اگر پاکستان کے ٹیکس ریونیو اہداف کی ماہانہ کارکردگی بہتر نہیں رہتی اور مالیاتی پروگرام اہداف حاصل نہیں ہوتا اور سہ ماہی کے ابتدائی مہینوں کا ڈیٹا خدشات ظاہر کرتا ہے تو پاکستان کی حکومت کو 4 ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے جن کا آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا ہے۔
ان اقدامات میں پیٹرولیم مصنوعات پر فوری طور پر جنرل سیلز ٹیکس کا نفاذ اور اس کو اسٹینڈرڈ ریٹ 17فیصد تک لے کر جانا ہے، دوسرا میٹھے مشروبات پر جی ایس ٹی استثنیٰ ختم کر کے 60 ارب روپے کا ریونیو جمع کیا جائیگا، تیسرا برآمدکنندگان کو دیا گیا غیر ضروری ٹیکس استثنیٰ ختم کرنا ہوگا اور سگریٹ کیٹیئر ون اور ٹیئرٹو پر اضافی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانا ہوگی جو کم از کم دو روپے فی سگریٹ ہو گی اس سے 120ارب روپے کا ریونیو جمع کیا جائے گا، حکام نے وفاقی بجٹ، پیٹرولیم پر بتدریج لیوی کا نفاذ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے معاہدے کے مطابق علمدرآمد کیا اور اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ حکومت نے فروری 2022 میں ریلیف پیکج دے کر آئی ایم ایف کے وعدوں اور اہداف سے انحراف کیا، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت میں کمی جبکہ بجلی کی قیمت میں 5 روپے فی یونٹ کمی کی گئی، ٹیکس ایمنسٹی اور استثنیٰ دیا گیا، پنشن میں اضافہ کرنے اور اضافی فوڈ سبسڈی دینے جیسے اقدامات سے گزشتہ مالی سال بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا ڈیڑھ فیصد بڑھ گیا، نئی حکومت نے کچھ تاخیر کے بعد ان فیصلوں کو واپس لینا شروع کیا جسے معاشی بحالی شروع ہوئی اور آئی ایم ایف پروگرام ٹریک پر واپس آیا۔
آئی ایم ایف کی ساتویں اور آٹھویں جائزہ کی منظوری کے بعد کنٹری رپورٹ کیمطابق پاکستان کی کرنسی کی قدر اور بیرونی توازن پر دباو? برقرار رہے گا، سیاسی و سماجی دباو? بڑھنے کی بھی توقع ہے جو پالیسی اور اصلاحات پر عملدرآمد میں حائل ہوسکتا ہے، خاص طور پر حکومت کی پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت اور اتحادیوں کے دباو? سے پروگرام کے پالیسی فیصلوں پر عملدرآمد مشکل ہوسکتا ہے ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے، ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے قدرتی آفات کے تسلسل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی اقتصادی شرح نمو 3.5 فیصد، مہنگائی کی شرح 20 فیصد متوقع ہے، بے روزگاری کی شرح 6 فیصد رہے گی، ریونیو اور گرانٹس 12.4فیصداور اخراجات 17.1فیصد رہیں گے۔
رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.5 فیصد متوقع ہے، پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا کم ہو کر 72.1 فیصد ہو جائے گا جو گزشتہ برس 78.9فیصد تھا، بیرونی قرضہ جی ڈی پی کا 37.1فیصد اور مقامی قرض68.2 فیصد رہے گا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر آئی ایم ایف قرضہ پروگرام پر عملدرآمد کی کارکردگی کمزور رہی اور بہت سے اہداف حاصل نہیں کیے گئے اور بعض پر جزوی عملدرآمد ہوا، یوکرین جنگ اور مقامی سیاسی بحران کے باعث خاص طور پر مالیاتی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کیلیے صورتحال چیلنجنگ رہی۔
رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت نے پروگرام پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی اور چار پیشگی شرائط پر عملدرآمد کیا جن میں پرسنل انکم ٹیکس سمیت رواں مالی سال کے بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری، صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایم اویو پر دستخط، فروری میں دیئے گئے ریلیف پیکیج کو واپس لینا اور جولائی اگست میں بجلی کے ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کرنا شامل ہے۔