پاکستان کے ایک نجی اسکول نے چار بچوں کو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا۔ احمدیہ برادری کو ملک میں تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں نو سو سے زائد شاخیں رکھنے والے اسکولوں کے ایک نیٹ ورک ’دی ایجوکیٹرز‘ نے دارالحکومت اسلام آباد سے قریب 80 کلومیٹر دور واقع ضلع اٹک کے چار طالب علموں کو ‘مذہبی وجوہات کی بنا پر‘ اسکول سے نکال دیا۔
طالب علموں کے اہل خانہ کے مطابق ان کے بچوں کو اسکول میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور آخر کار انہیں اسکول سے نکال دیا گیا۔
جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان عامر محمود نے ہفتہ کے روز نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’تعلیمی اداروں میں احمدیہ طلبا اور اساتذہ کے ساتھ امتیازی سلوک اور عدم رواداری دن بدن بڑھ رہی ہے۔‘‘
عامر محمود نے مزید بتایا، ’’ریاست مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو روکنے اور ہماری حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم پاکستان میں خوف کی حالت میں رہ رہے ہیں۔‘‘
جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان سلیم الدین نے اسکول کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ”اٹک میں دی ایجوکیٹرز مٹھیال کیمپس سے چار احمدی طالب علموں کو نکال دیا گیا۔ ان کا جرم (نوٹس کے مطابق) احمدی ہونا ہے۔ یہ پاکستان کے نام نہاد معروف تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ ایک فرد کے عقیدے کا تعلیم سے کیا تعلق؟‘‘
اسکول کی جانب سے جاری کردہ مبینہ نوٹس کے مطابق بچے اپنے احمدی عقیدے کے باعث اسکول میں مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے۔ چاروں بچے بالترتیب تیسری، چھٹی، نویں اور دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔
پاکستان میں قریب 40 لاکھ افراد پر مشتمل اقلیتی احمدیہ برادری کا اصرار ہے کہ وہ اسلام کے پیروکار ہیں لیکن پاکستان نے 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔
تب سے اس برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو مہلک حملوں، تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب نے شادی کے خواہشمند جوڑوں کے لیے ’ختم نبوت کے بارے میں اعلامیہ‘ جمع کرانا لازمی قرار دے دیا تھا، جس سے احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے پہلے سے موجود مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔