آ
آزاد جموں کشمیر میں اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ ایک ڈی ایف او نے مظفرآباد شہر کے مشہور ٹمبر مرچنٹ عبدالوکیل اعوان کا لکڑی سے بھرا ٹرک چیکنگ کے لیے روکا۔ یہ گستاخی ناقابل ہضم تھی، وزیر کو فون کر کے کہا گیا ڈی ایف او کی معطلی چاہیے ۔ نتیجتاً ڈی ایف او معطل ہو گیا۔
مبینہ ٹمبر مافیا کے کہنے پر ڈی ایف او کی معطلی پر شدید محکمانہ ردعمل سامنے آتا ہے۔ کچھ دنوں بعد جناب وزیر ڈی ایف او کو اپنے دفتر بلاتے ہیں احسان عظیم کے انداز میں بحالی کی خبر دینے کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں اب آپ کے ساتھ کوئی نہیں چھیڑ سکتا ایک چھوٹا سا کام میرا بھی کریں 5000 مکعب فٹ دیودار کی لکڑ راولپنڈی پہنچا کر دیں۔
بقول زبان خلق مسلم لیگ ن کے دورحکومت میں جنگلات کے اعلیٰ آفیسرز کے اکثر تبادلے عبدالوکیل اعوان کی خواہش کے مطابق ہوتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب نیلم کے جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی کے نتیجے میں کئی آرا مشین والے پلازوں کے مالک بنے۔
سال 2021 وزیر یر جنگلات وقت ن لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کا حصہ بن کر رکن اسمبلی بنے دوبارہ وزارت جنگلات لینے کی کوشش کی مگر ضلع نیلم کے تمام مکتبہ فکر کی طرف سے زبردست ردعمل کے بعد وزارت جنگلات اکمل سرگالہ کے حصے میں آئی۔ اور آج تباہی کا یہ عالم ہے کہ نیلم کے جنگلات کے لیے مسلم لیگ ن کا دورحکومت بہتر سمجھا جاتا ہے۔
اوپر جو کہا گیا کیا یہ من گھڑت کہانی ہے یا حقیقت ؟
چونکہ الزامات لگانا اور انھیں ثابت کرنا الگ الگ معاملات ہیں.
لیکن پہلے محکمہ جنگلات کے سابق چیف کنزرویٹر کی گفتگو دیکھتے ہیں۔ 2016 میں جب فاروق حیدر نئے نئے وزیراعظم بنے تھے شجر کاری کی افتتاحی تقریب میں چیف کنزرویٹر وقت نے کہا تھا کہ محکمہ جنگلات کے اعدادوشمار کے مطابق سالانہ 8 ہزار کنال سے جنگلات کا صفایا ہو رہا ہے۔
ہر سال شجر کاری کے باوجود چھوٹے سے خطے میں اس قدر تباہی آخر کیوں ؟
کیا عوامی ضرورتوں کے تحت جنگلات کا حجم کم ہو رہا ہے ؟
کیا حکومتوں کی طرف سے شجر کاری شجر پروری اور درختوں کی کٹائی میں عدم توازن اس کی بنیادی وجہ ہے ؟
صحافی شوکت اقبال کا خیال ہے جنگلات کی تباہی کے زمہ دار وزارتِ جنگلات اور اراکین اسمبلی ہیں۔
جب وزیر جنگلات ملازمین کے تبادلے اور معطلی ٹمبر مافیا کے کہنے پر کرے اور بحالی پر 5000 مکعب فٹ لکڑ ریاست کی حدود سے باہر پہنچانے کی مانگ کرے تو جنگلات کا تحفظ کیسے ممکن ہے۔
اس وقت کیا ہو رہا ہے ؟
وادی نیلم سے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب رکن اسمبلی میاں عبدالوحید نے 5 اکتوبر 2022 کو جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی پر بحث کے لیے قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں تحریک التواء پیش کی۔ میاں عبدالوحید کی طرف جس صورت حال کی نشان دہی کی گئی اس کے مطابق
“نیلم ویلی کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی نہ رک سکی۔ ایک منظم مافیا سرکار کی سر پرستی میں دیدہ دلیری کے ساتھ سبز درختان کی بریدگی جاری رکھے ہوئے ہے۔ فائلوں میں سبز درختان کی کٹائی پر پابندی ہے لیکن موقع پر انتہائی بے دردی کے ساتھ سبز درختان کا قتل عام جاری ہے۔ یہ سارا عمل کسی طور پر بھی اعلی سطحی سر پرستی کے بغیرممکن نہیں۔ نیلم ویلی کے کیرن فاریسٹ ڈویژن کی بانڈی رینج کے کمپارٹمنٹ نمبر 9 گہل اشکوٹ میں اس وقت بھی عاشق نامی ٹھیکیدار کے ذریعے بدوں محکمانہ مارکنگ سبز درختان برید کر نے کا عمل دن رات جاری ہے۔اس گھناؤنے فعل کی انجام دہی کے لئے مقامی مزدورں کی بجاۓ سوات سے پٹھان مزدور منگوائے گئے ہیں ۔ عینی شاہدین کے مطابق سبز درختان کی بے دریغ کٹائی جاری ہے ۔ ہر درخت کی لپیٹ 15 سے 25 فٹ تک ہے
راقم ( میاں عبدالوحید) اس تحر یک التواء کے ذریعہ اس اہم ترین معاملہ کو ایوان کے نوٹس میں لاتے ہوئے حکومت سے بوساطت جناب سپیکر یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ آج ہی جنگی بنیادوں پر سینئر آفیسر ارتضی قریشی کی سربراہی میں کمیشن بنایا جا کر اس معاملہ کی فوری تحقیقات کی جاۓ اور ایوان کو بتایا جاۓ کہ اس قومی جرم میں کون کون شریک ہے ۔ کیا احساس نہیں ہوا۔ حالیہ سیلاب نے ہمیں متنبہ کر دیا ہے کہ چند ٹکوں کی لالچ میں آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ہم سب کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا”
یہ تو تھی کمپارٹ نمبر 9 بانڈی رینج اشکوٹ نیلم کی کہانی جس پر میاں عبدالوحید قانون ساز اسمبلی میں تحریک التواء لائے ۔
اسلام پورہ اشکوٹ کے جنگلات کمپارٹ نمبر تین اور چار کی کہانی تو اس سے بھی خوفناک ہے ۔ یہ عبدالوکیل اعوان کے پسندیدہ کمپارٹ ہیں ۔
ان دو کمپارٹ میں جو تباہی ہوئی اسے پبلک کیا جانا اشد ضروری ہے ۔
مثلاً کمپارٹ نمبر 4 اشکوٹ کا ٹھیکہ خالد محمود اعوان نے حاصل کیا لیکن نکاسی وڈھلائی کا کام محکمانہ اجازت کے بغیر عبدالوکیل اعوان کر رہا ہے ۔اس کے لیے چالان بک نمبر ایک جعلی پرنٹ ہونے کے محکمانہ طور پر خدشات کا اظہار کیا گیا۔
چالان بک میں ٹمپرنگ کی محکمانہ طور پر تصدیق کی گئی ۔خالد اعوان کو جو ٹھیکہ دیا گیا ایک دفتر کے مطابق لکڑ کی نکاسی اور ڈھلائی ہو چکی لیکن ایک دوسرے دفتر کے مطابق تیس فیصد لکڑ کی نکاسی و ڈھلائی نہیں ہوئی ۔ چالان بک نمبر ایک میں ٹمپرنگ اور چالان 14 اور 44نمبر کی کہانی لاکھوں مکعب فٹ تک جاتی ہے ۔ انیق ووڈ انڈسٹری کے نام پر لکڑ براہ راست پاکستان کیسے پہنچی ۔یکم اگست کو جو ٹھیکہ ختم ہو چکا تھا اس کی توسیع کس قانوں کے تحت کیسے اور کس نے کی ؟
میرا خیال ہے وزارت جنگلات کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔
ایک طرف ہماری حکومتوں کے دعوے ہیں اور دوسری طرف ان کا سفاک اور خوف ناک طرز عمل ۔یوں ہم کہ سکتے ہیں جنگل کی تباہی کی زمہ دار صرف اور صرف وزارت جنگلات ہے۔