بلوچوں کے خلاف پاکستانی فوجی مظالم کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے ہندوستانی عوام کو آواز اُٹھانا چائیے۔وویک سنہا کا تقریب سے خطاب

0
305

بلوچ اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں،ہندوستانی عوام کو ساتھ دینا چائیے،۔

دہلی یونیورسٹی میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے مقبوضہ بلوچستان میں جاری آزادی کی جنگ پر بحث کرنے کے ساتھ طلباء و طالبات نے اس حوالے سوالات بھی کیے۔

ہندوستان کے راجدانی دہلی میں دہلی یونیورسٹی میں منعقد ایک پروگرام جسکا موضوع تھا،

Digital Journalism ,Conflict Regions

مقبوضہ بلوچستان،پاکستانی زیر قبضہ کشمیر،گلگت بلتستان

کے حوالے نیوز انٹرونشن کے بانی اور فلم میکر وویک سنہا نے روشنی ڈالی کہ پاکستان کی ریاستی جبر بلوچستان میں انتہا کو پہنچ چکے ہیں،جہاں لاپتہ افراد،مسنگ پرسنز ایک عام سے بات ہو گئی ہے۔
،پاکستان فوج Kill and Dump کی پالیسی پر کار فرما ہے اور اس نے دنیا کی تمام انسانی حقوق کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔وویک سنہا نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد سے سینکڑوں سال پہلے بلوچ اپنی سرزمین کا مالک ہے اور27 مارچ1948 کو پاکستان نے بندوق کی نوک پر بلوچ سرزمین پر قبضہ کیا اور اسی دن سے بلوچ کی جدوجہد جاری ہے مگر اس وقت میڈیا کے نہ ہونے سے بلوچستان کا ایشو دب گیا تھا البتہ سینکڑوں بلوچوں نیاس وقت سے 80 کی دہائی تک اپنی جانیں اپنی دیش کی آزادی کے لیے قربان کیے،ہزاروں بلوچ بے گھر ہوئے مگر بلوچ آزادی کی جہد نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے غالبہ2002 سے2004 کے وقت متعارف کرایا جب گوادر میں چینی انجبئیرز پر حملوں کے ساتھ سریز بلاسٹ ہوئے۔جسکی کی ذمہ داری اس وقت بی ایل ایف،بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی جسکے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ہیں۔اب بلوچ فریڈم فائٹرز جنکو بلوچ لوگ سرمچار کہتے ہیں،جنگی حوالے سے منظم ہیں،جہاں بی ایل اے جو پہلی مزاحمتی تنظیم تھی اسکے بعد دیگر اور تنظیمیں جنگی محاذ میں آ چکے ہیں اور براس کے نام سے ایک امبریلہ آرگنائزیشن بھی موجود ہے اور اب بلوچ اپنی جنگ کی کامیابی کی جانب رواں ہیں جہاں فدائی مجید بریگیڈ نے

self-sacrifice

کا سلسلہ شروع کیا جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچ قوم میں نیشنلزم کی اُبھار کیا ہے وہ اپنی جان خود دشمن کو تباہ کرنے کے لیے آخری حد تک جا چکے ہیں۔

بلوچ قوم کے خلاف پاکستان اپنی پوری طاقت استعمال کر رہی ہے جو کام اس فوج نے بنگلہ دیش میں مظالم ڈال کر کیے اس وقت مقبوضہ بلوچستان میں اس سے کہیں زیادہ دہشت کے ساتھ پاکستان بلوچ کی نسل کشی کر رہا ہے۔فوج نے اپنی ڈیتھ اسکواڈ بنانے کے ساتھ مذہبی شدت پسندوں کو بھی بلوچوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے،بلوچ ایک قوم کے سیکولر قوم ہے۔

بلوچ جب اپنی حقوق اور قبضہ کیے ہوئے سرزمین کی بات کرتاہے تو انکو بے دردی سے مار دیا جاتا ہے،بیرونی ممالک کینڈا میں بلوچ لیڈر کریمہ بلوچ،بلوچ جرنلسٹ ساجد بلوچ کو سویڈن میں پاکستانی خفیہ ادارہ آئی ایس آئی مار دیتی ہے،مگر اسٹریم میڈیا خاموش ہے۔میڈیا کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان میں جاری پاکستانی مظالم میں تیزی آ رہی ہے اس لیے کہ بلوچ کی مظلومیت کوانکے اوپر پاکستانی جبر کو سامنے نہیں لایا جاتا ہے۔

دوران سیشن ایک استوڈنٹ نے سوال کیا کہ ہندوستان کی حکومت کیوں بلوچوں کی مدد نہیں کرتی،جس پر اسپیکر سنہا نے کہا کہ اسکا جواب تو سرکار ہی دے سکتا ہے مگرہندوستانی عوام کو بلوچوں پر ہونے والے مظالم کا پتہ ہونا چائیے،اگر عوام کی منشا ہوئی تو سرکار کو مجبورا عوام کی سنی پڑئے گی،طلباء کو اس حوالے آگاہی کی ضرورت ہے،اس بارے پڑھیں پاکستان اس خطے کے لیے کینسر بن چکا ہے اور ایک آزاد بلوچستان ہی اس خطے میں امن و شانتی لا سکتا ہے۔

آپ لوگوں کو بنگلہ دیش یاد ہو گا یا پڑا ہو گا کہ 1971 میں 92 ہزار پاکستانی فوج ہماری سرکار نے جنگی قیدی بمعہ ہتھیار چھوڑ دئیے کیا آپ کو پتا ہے کہ انہی جنگی قیدی فوجیوں نے پاکستان جا کے بلوچستان کا رخ کیا اور ستر کی دہائی میں بلوچوں کی بے رحمی سے قتل کیا انکے مال مویشی لوٹے گئے خواتین بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے اور سکس سلیب بنایا گیا اگر اس وقت ہماری سرکار انکو نہیں چھوڑتی تو آج صورت حال شاید مختلف ہوتی۔
یہ تو ایک فیصد بھی نہیں ہے جو میں نے یہاں بیان کیا ہے مقبوضہ بلوچستان کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے اورہمارے لوگوں ہندوستانیوں کو اس حوالے اس لیے پتا نہیں ہے کہ ہماری ایکسٹریم میڈیا کبھی اس پر چرچہ نہیں کرتی ہے اور بلوچستان ایشو کو میڈیا میں جگہہ نہیں دیا جاتا اس لیے یوتھ کو ڈیجٹل میڈیا کے ماتیم سے بلوچستان کے بارے میں آ گاہی کی ضرورت ہے۔
مذکورہ سیشن میں اسپیکر وویک سنہا کے ساتھ،جے این یو کے لیکچرار ڈاکٹر گورو تیاگی، اور پی ایچ ڈی پی ایچ ڈی سکالر پیا شاؤ بھی تھے۔

واضح رہے کہ دہلی یونیورسٹی میں ہر سال تین روزہ پروگرام ہوتا ہے جس میں مختلف سیشن ہوتے ہیں اور اس علاقے کے دیگر تین یونیورسٹیز کے طلباء بھی مدعو ہوتے ہیں،اس سلسلے کو پانچ برس ہو چکے ہیں اور رواں سال11 نومبر سے 13نومبر تک یہ پروگرام ہوا جسے

YUVA (Youth United for Vision and Action)

نے آرگنائز کیا تھا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں