سے پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ اب ٹل چکا ہے۔
پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ 75 فی صد سے بھی تجاوز کرکے پہلی بار اس قدر بلند ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔ اس سے قبل مارچ میں یہ خطرہ محض سات فی صد پر نوٹ کیا جا رہا تھا۔
معاشی مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس خطرے کے بڑھ جانے کا مطلب ہے کہ ملک کے پاس درآمدی بلوں کی ادائیگیوں اور غیر ملکی قرضوں کو بروقت ادا کرنے کے لیے غیر ملکی ذخائر کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ بانڈ میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد اور نجی ادارے اس ریٹنگ ہی کی بنیاد پر بانڈز خریداری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ ریٹ (سی ڈی ایس) بڑھنے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس ملک پر سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی آرہی ہے اور یہ ملک اپنے جاری کردہ بانڈز کی ادائیگی مقررہ وقت پر شاید نہ کر پائے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت پاکستان کے ایک ارب ڈالر مالیت کے پانچ سال کی مدت کے لیے جاری کردہ انٹرنیشنل سکوک بانڈ رواں سال دسمبر میں میچور ہورہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت پاکستان ان بانڈز کی میچورٹی پر ادائیگی کو یقینی بنائے گی لیکن اس کے باوجود سرمایہ کاروں کے خدشات برقرار نظر آتے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ کریڈٹ ڈیفالٹ سویپ ریٹ 75 فی صد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاکستان نے 100 ڈالر کے بانڈ خریدنے والے سرمایہ کار کو 8 فی صد سود دے رہا تھا تو اب حکومت کو 25 ڈالر پر آٹھ فی صد سُود ادا کرنا ہوگا۔
دوسرے الفاظ میں ہر 100 ڈالر پر 32 ڈالر حکومت کو سُود کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔ انہوں نے موجودہ صورتِ حال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی معاشی صورتِ حال اتنی خراب نظر آتی ہے کہ یہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر جا پہنچا ہے۔
اُن کے بقول حکومت موجودہ حالات میں نئے بانڈز جاری کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی جس سے وہ کسی حد تک غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جمع کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے بحران کو ٹالنے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس کوشش بھی نہیں کی جا رہی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو اس سنگین صورتِ حال کا ادراک ہی نہیں اور وہ کسی اور دنیا میں بیٹھے ہیں۔
ڈاکٹر پاشا نے مزید کہا کہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی درجہ بندی اس سطح پر گرا دی ہے کہ اب اسے سری لنکا، گھانا، مالی، ارجنٹائن، نائیجیریا اور دیگر ممالک کے ساتھ شامل کیا جا رہا ہے جو ڈیفالٹ کے قریب جاپہنچے ہیں یا ڈیفالٹ ہوچکے ہیں۔ جب ریٹنگ اس قدر نیچے چلی جائے تو پھر پاکستان کے بانڈز بڑے ڈسکاونٹ کے بغیر کون خریدے گا