مقبوضہ بلوچستان :22اضلاع میں ماہر امراض نسواں نہ ہونیکاانکشاف

0
83

مقبوضہ بلوچستان کے22اضلاع میں ماہر امراض نسواں نہ ہونے کاانکشاف ہواہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈز(یو این ایف پی اے)کے سیلاب کے دوران ویب سائٹ پرشائع ہونے والی اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 1.6ملین خواتین تولیدی عمر کی ہیں جن میں ایک لاکھ 30ہزار حاملہ خواتین ہیں جن میں سے 20 ہزار کے قریب خواتین کے ہاں اگلے ماہ بچوں کی پیدائش متوقع ہے۔

محکمہ خزانہ بلوچستان کی ویب سائٹ پر موجود بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے 36اضلاع میں صرف 13اضلاع میں ماہر امراض نسواں ہیں جبکہ 22اضلاع میں ماہر امراض نسواں سے محروم ہیں۔

پی پی ایچ آئی کے رپورٹ 2021 کے مطابق بلوچستان کے 34اضلاع کے 753بنیادی مراکز صحت میں 73لیڈی میڈیکل آفیسرز جبکہ 452لیڈی ہیلتھ ورکرز ہیں 2021 میں 31ہزار سے زائد ڈیلیوریاں بی ایچ یوز میں ہوئی ہیں۔

پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔بنیادی مرکز صحت میں کام کرنے والے ویکسینیٹرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاکہ ہمارے ہاں ادویات کی کمی،عملے کی غیر حاضری اور صفائی کی ابتر صورتحال کامسئلہ درپیش ہے ادویات آنے والے مریضوں کیلئے ناکافی ہوتی ہیں اس حوالے سے بارہا حکام کو آگاہ کرچکے ہیں لیکن اب تک کوئی شنوائی نہیں ہوسکی ہے،لیبر روم،ای پی آئی سینٹر کے علاوہ لیبر روم میں ایل ایچ وی نہ ہونے کی وجہ سے اکثر گائنی کے نارمل کیسز ریفر کئے جاتے ہیں۔

بلوچستان کاایک پسماندہ علاقہ ہے جس کا افغانستان،ایران کابارڈر لگتاہے اور اس کے ساتھ بحرہ عرب کی ساحلی پٹی لگتی ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس اسلام آباد کے رپورٹ 2021 کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ غربت کی شرح 40.7فیصد بلوچستان میں ہے۔

حالیہ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق پاکستان اپنے گراس ڈیموسٹک پروڈکٹ(جی ڈی پی) کا صرف 1.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے جبکہ بلوچستان اپنے کل بجٹ کا 6.2فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتاہے۔

محکمہ خزانہ بلوچستان کی ویب سائٹ پر موجود بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع کوئٹہ،قلات، نصیرآباد،پنجگور،نوشکی،قلعہ عبداللہ،سبی،ژوب، لسبیلہ،کیچ، خضدار،لورالائی ودیگر میں ماہر امراض نسواں کے سکیل 18سے لیکر20گریڈ تک 60تک کی مختلف آسامیاں ہیں محکمہ صحت کی جانب سے پبلک سروس کمیشن کے زیرایل ایم او کی آسامیاں مشتہر کی جاتی ہے۔

ماں اور نوزائیدہ بچے کے صحت کے پروگرام (ایم این سی ایچ)کے بلوچستان کے کوآرڈنیٹر اسماعیل میروانی کے مطابق پروگرام کو فنڈز، ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال، لیڈی ڈاکٹر سمیت ماہر افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں.ڈاکٹر اسماعیل میروانی کے مطابق بلوچستان کے مختلف اضلاع بارکھان، شیرانی، آواران، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسی خیل، واشک، خاران سمیت بلوچستان کے ان اضلاع میں زچگی کے دوران ماں کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔

جہاں زچہ و بچہ کے لیے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں۔پاکستان بیوروسٹیٹسٹکس کے اعداد وشمار کے مطابق ضلع پشین کی آبادی 7لاکھ 36ہزار آبادی نفوس پرمشتمل ہیں جس میں 3لاکھ 56ہزار خواتین ہیں یہاں مرد و خواتین کا تناسب 106.09 ہے اور آبادی میں اضافے کی شرح 3.58 فیصد سالانہ ہے۔

پیپلرزپرائمری ہیلتھ کیئرانیشیٹیو(پی پی ایچ آئی)کے سالانہ رپورٹ 2021 کے مطابق بلوچستان بھر کے 34اضلاع میں 753بنیادی مراکز صحت فعال ہیں جہاں گزشتہ سال 31ہزار640ڈیلیوریاں ہوئیں جن میں 17ہزار575بی ایچ یوزاور 14ہزار65گھروں میں ہوئیں۔ان بنیادی مراکز صحت میں طبی عاملہ جس میں میڈیکل آفیسرز،لیڈی میڈیکل آفیسرز اور ڈینٹل سرجنز کی تعداد 228جبکہ ایل ایچ ویز،ایم ٹیز،لیب اسسٹنٹ،ویکسینیٹرز،ڈسپنسر،سوشل آگنائزر اور فمیل سوشل آرگنائزر کی تعداد 1388ہیں۔ یہ محکمہ صحت بلوچستان کے پے رول پر ہے جبکہ پی پی ایچ آئی کے اپنے ملازمین کی تعداد1426ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائٹڈنیشنز پاپولیشن فنڈز(یو این ایف پی اے)کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کنیم کے مطابق خواتین اور لڑکیاں موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤکاشکار ہیں جب بحران آتا ہے تو خواتین حاملہ ہونا اور بچے کو جنم دینا بند نہیں کرتی ہیں۔بلوچستان اورسندھ میں 750کے قریب صحت کی بنیادی مراکز کو نقصان پہنچا ہے۔یواین ایف پی اے متاثرہ علاقوں کو ہسپتال کے خیموں، تولیدی صحت کی کٹس اور فوری طور پر ضروری سامان فراہم کر رہا ہے تاکہ صحت کی اہم خدمات جاری رہ سکیں۔

بولان میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر سید ظہور شاہ نے سہولیات کی فقدان پرافسوس کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہبلوچستان کے اکثراضلاع میں سہولیات کا فقدان ہے آپریشن تھیٹر میں بجلی تک میسر نہیں تو پھر لیبرروم میں ایک گائناکالوجسٹ بغیر سہولت کے کیسے کام کرسکتی ہے جو انتہائی حساس معاملہ ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ کی سطح پر ڈی ایچ کیو ہسپتال بنیں تاکہ ہر ضلع میں کم از کم 4سے 6گائناکالوجسٹ ڈاکٹرزموجود ہوں۔بلوچستان ایک ہی میڈیکل یونیورسٹی ہے یہاں کے ڈاکٹرز مزید تعلیم کیلئے بلوچستان سے باہر سفر کرتے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے بتایا کہ بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے۔اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں۔

ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں صرف 1700 کمیونٹی مڈ وائف (تربیت یافتہ دائیاں)اور 1500 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں.ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر عبدالغفار کاکڑ نے بتایاکہ ضلع کی سطح پر صحت کا شعبہ تین حصوں میں تقسیم ہے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کوایم ایس،بی ایچ یوز پی پی ایچ آئی کے ماتحت جبکہ ریجنل ہیلتھ سینٹرز ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کے ماتحت ہے ڈی ایچ کیو میں 4سے5گائناکالوجسٹ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔طبی عاملے بالخصوص ڈاکٹرز کی کمی ہے پشین میں کوئٹہ سے ڈاکٹرز آکر ڈیوٹی کرتے ہیں لیکن وہ مکمل ڈیوٹی نہیں کرتے جس کی وجہ سے مشکلات کاسامنا ہے۔

محکمہ صحت کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ڈاکٹرخالد قمبرانی کے مطابق محکمہ صحت کے دو حصے ہے ایک پرائمری دوسرا سیکنڈری ہے پرائمری ہیلتھ کیئر میں سول ڈسپنسری،بیسک ہیلتھ یونٹ،رولرہیلتھ سینٹرز ہیں جبکہ سیکنڈری ہیلتھ کیئر میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز اور ٹی ایچ کیو شامل ہیں۔ماہر امراض نسواں کی کمی کو دور کرنے کیلئے 35گائنا کالوجسٹس کی تعیناتی کی سمری بھیج دی گئی ہے جلد ہی تعیناتی عمل میں لائی جائیگی اس کے علاوہ نرسنگ کالجز کے ذریعے تربیت یافتہ دہائیوں کی کمی کودور کرنے کیلئے کوششیں جاری ہے آئندہ 5سالوں میں ایل ایچ ویز کی جو خلا پائی جارہی ہے وہ ختم کی جائیگی کیونکہ اس وقت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں نرسنگ کالجز بنا کر اس میں تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے ایک ٹارگٹ رکھاہے کہ 1000 میں جوشرح اموات 78ہے اس کو 50جبکہ ایک لاکھ میں 298کو کم کرکے 200تک لائیں تاکہ دوران زچگی اموات کم سے کم ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں