پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے گذشتہ دنوں پاکستان کے معاشی حالات کی بنیاد پر میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کو دیوالیہ قراد دیا تھا۔
تاہم بعد میں انھوں نے ٹوئٹر پراپنے پیغام میں وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا نے ان کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر چلایا ہے۔
یوں تو شبر زیدی نے اپنے بیان کی وضاحت کر دی ہے تاہم ملک میں اس حوالے سے ابھی بھی خاصی بحث کی جا رہی ہے۔ ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ اگرچہ پاکستان کے معاشی اشاریے خراب صورت حال کا شکار ہیں تاہم ملک کے دیوالیہ ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔
تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے۔
ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے؟
کسی ملک کے دیوالیے ہونے کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیے دیا جاتا ہے۔
کراچی میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں معیشت کے پروفیسر صائم علی نے بی بی سی اردو کو اس سلسلے میں بتایا کہ تکنیکی طور پر ایک ملک اس وقت دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے جب وہ بیرونی قرضوں کو ادا کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جائے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کی ایک مثال لاھینی امریکی ملک ارجنٹائن کی ہے جو گذشتہ دس سالوں میں دو بار دیوالیہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ ’کسی ملک کے لیے داخلی قرضے بھی ایک مسئلہ ہوتے ہیں تاہم اس کی بنیاد پر ملک کو بین الاقوامی سطح پر دیوالیہ نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اندرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے مقامی کرنسی چھاپ کر ان کی ادائیگی تو ہو سکتی ہے لیکن بیرونی قرضے کی ادائیگی کے لیے عالمی کرنسی کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ اس وقت ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ حاصل ہے۔‘
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر امجد راشد نے بھی بیرونی طو ر پر قرضوں کی قسط اور ان پر سود کی ادائیگی کی ناکامی کی صورت میں کسی ملک کے دیوالیہ قرا ر دیے جانے کی تعریف بیان کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’جب ایک ملک قرضہ حاصل کرتا ہے تو اس کی واپسی یکمشت نہیں کی جاتی ہے بلکہ قسطوں کی صورت میں کی جاتی ہے اور ہر قسط کے ساتھ سود بھی ادا کیا جاتا ہے۔ ‘
انھوں نے بتایا کہ ایک ملک اس قرضے کی واپسی کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو یہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔
دیوالیہ ہونے کی کیا علامات ہوتی ہیں؟
ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی کتنی قسطیں اور ان پر سود کی کتنی ادائیگی ہونی ہے۔
ڈاکٹر امجد رشید نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’جب ملک کے جاری کھاتوں (کرنٹ اکاؤنٹ) کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے ک طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جاری کھاتوں کا خسارہ اس لیے بڑھتا ہے کہ ملک میں درآمدات (امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں ا ور اس کے مقابلے میں برآمدات (ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دباؤ زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لیے ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے۔‘
آئی بی اے کے صائم علی نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھنے کی سب سے بڑی نشانی اس ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کی صورت حال ہوتی ہے کہ وہ کتنی تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔
’ان میں ہونے والی کمی کا اثر بیرونی ادائیگی پر پڑتا ہے کیونکہ قرضے کی واپسی ڈالر میں کرنی پڑتی ہے اور اگر ڈالر کے ذخائر کم ہو رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے پاس قرض ادائیگی کی سکت کم ہو رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسی طرح اگر تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور برآمدات کی صورت میں ڈالر کم آ رہے ہیں تو یہ بھی ملک کے ذخائر میں کمی لائیں گے۔‘
ڈاکٹر امجد راشد نے بتایا کہ ’جب کوئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لیے جاری کیے جانے والے بانڈذ بھی زیادہ شرح سود پر لیے جاتے ہیں یعنی ملک کو ان بانڈذ میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس ملک کی ریٹنگ کم کر دی جاتی ہے۔
دیوالیہ ہونے کے کیا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
کسی ملک کے دیوالیہ ہونے پر اس کے منفی اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد نے کہا کہ اس سے عالمی منڈی میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرض کی سہولت نہیں ملتی۔
انھوں نے کہا ایک ایسا ملک جو قرضوں پر چلتا ہے اس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضے کی سہولت بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ اس ملک کی معیشت چل سکے۔
انھوں نے کہا کہ ’دیوالیہ ہونے کی صورت میں شدید نتیجہ یہ برآمد ہوسکتا ہے کہ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کر لیا جائے اور آپ کے ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک میں قبضے میں لے لیے جائیں۔‘
ڈاکٹر پاشا نے کہا کہ ’دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روازنہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔‘
‘