پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور سندھ بلوچستان سے استعفوں کے اعلان کے بعد پاکستان میں ایک نئی سیاسی بحث چھڑ گئی ہے۔ مگر اسمبلیوں کی تحلیل نہیں بلکہ کیا بغیراسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے کیا نیازی سیاست کر سکیں گے یا اندون خانہ اسکے دیگر سنئیر جیسے کہ شاہ محمود وغیرہ کوئی کردار ادا کر کے خود کی سیاسی بیساک بچانے کے لیے پی ٹی آئی کو بچا پھائیں گے؟
عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کو سیاسی تجزیہ نگار ’ماسٹر سٹروک‘ قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کی بند گلی میں جاتی ہوئی سیاست کو نیا راستہ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان فی الحال اس اعلان پر پوری طرح عمل نہیں کریں گے۔
پی ٹی آئی نے جمعے کو خیبر پختونخوا جب کہ سنیچر کو پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کر رکھا ہے جس کے بعد عمران خان اسمبلیاں تحلیل کرنے سے متعلق اعلان کریں گے۔
صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں نگراں حکومت کیسے قیام میں آئی گی؟
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبوں میں نگراں حکومت کا فیصلہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مشاورت سے کیا جائے گا۔ ’اس وقت اپوزیشن کی کوشش تو یہی ہے کہ اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جائے لیکن نگران حکومت قائم کرنے کے مرحلے کا آغاز اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد شروع ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب اسمبلی تحلیل ہو جائے گی تو پھر قائد حزب اختلاف اور وزیراعلٰی کی طرف سے دیے گئے ناموں پر مشاورت ہوگی، ڈیڈلاک کی صورت میں معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا جائے گا، جس کے ممبران اپوزیشن اور حکومت سے برابری کی بنیاد پر لیے جائیں گے۔
احمد بلال محبوب کے مطابق کمیٹی میں بھی ڈیڈلاک کی صورت میں الیکشن کمیشن دیے گئے کسی نام پر خود فیصلہ کر لے گا اور گورنر صوبے میں نگراں حکومت کا اعلان کر دیں گے۔انہوں نے بتایا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی علیحدہ علیحدہ تحلیل ہو۔
’ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں کچھ آ?ئینی پیچیدگیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں وفاق کو حکومتی امور چلانے میں مشکلات تو ہوں گی لیکن آئینی طور پر صوبوں کے ساتھ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘کیا ملک میں پہلی بار صوبائی اور قومی اسمبلی کے علیحدہ علیحدہ انتخابات ہوں گے؟
احمد بلال محبوب کے مطابق پڑوسی ملک انڈیا میں وفاق اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات علیحدہ ہوتے ہیں، اگر صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی تحلیل نہ ہوئی تو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تین ماہ کے اندر کروانا ہوں گے اور اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوگی۔. انہوں نے کہا کہ ’ایسی صورت میں پاکستان میں بھی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر علیحدہ علیحدہ انتخابات ہوں گے جس سے اضافی 15 سے 20 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے، جو ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایک مشکل کام ہوگا۔‘
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق‘موجودہ صورتحال میں بظاہر لگتا ہے کہ تحریک انصاف اسمبلیاں تحلیل نہیں کرے گی بلکہ اس معاملے سے فوری انتخابات کے لیے دباؤ بڑھایا جائے گا۔‘
مگر تجزیہ نگاروں کے مطابق اس وقت پاکستانی معاشی صورت حال ایسی نہیں کہ فورا الیکشن کرائے جائیں اور فوج اس وقت عمران نیازی کو پہلے کی طرح سپورٹ کرنے سے بھی قاصر ہے،جبکہ موجودہ حکومت نے ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پلان بی تیار کر لی ہے اور ہو سکتا ہے کہ پنجاب میں عدم اعتماد سے وہ اس کی شروعات کریں۔