گلگت بلتستان پاکستانی قبضہ کی وجہ سے آج مسائلستان بن چکا ہے۔ نیوز انٹرونشن رپورٹ

0
85

گلگت بلتستان اپنی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، مگرپاکستانی قبضہ کی وجہ سے مسائلستان بن چکا ہے،عوام بے روزگاری سے لے کر زندگی کی تمام ضروریات سے محروم ہیں۔

گلگت بلتستان تین ڈویژن میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلتستان،گلگت اور دیامیر،۔
بلتستان ڈویژن کو قابض پاکستانی ریاست نے چار ڈسٹرکٹ میں بانٹا ہے،اسکردو، گنگچھے،کھرمنگ اور شگر
گلگت ڈویژن کو بھی چار اضلا ع میں رکھا گیا ہے،گلگت غزر،نگر،ہنزہ۔جبکہ دیا میر کو دوڈسٹرکٹ میں رکھا گیا ہے، استور اور دیا میر

گلگت کے تمام علاقوں میں آئے روز مہنگائی،بجلی کی بندش،نرخوں میں اضافے کے خلاف احتجاج معمول بن چکے ہیں،اسکے علاوہ عوام ریاستی فورسز کی بلاوجہ کی چیک پوسٹوں سے بھی تنگ آ چکی ہے۔

ہمارے نمائندے کے مطابق گلگت میں سیاسی پروسس1992 کے بعد سے شروع ہوا مگر اس سیاسی پروسس نے رفتار نہیں پکڑی جس کی وجہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی پالیسی تھی کہ کس طرح سے مذہب کے نام پر عوام کو اپنی قومی شناخت سے دور رکھا جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اس میں کامیاب ہوئے جسکی وجہ سے گلگت کے عوام کو با آسانی پاکستانی صوبائی سسٹم میں لانے کے لیے پروسس 2003 میں شروع ہوا۔

گلگت مقبوضہ جموں کشمیر جسے پاکستان آزاد کہتا ہے وہاں کی طرح یہاں بھی فورتھ شیڈول لاگو ہے۔یہ کہناغلط نہیں ہو گا کہ لوگ ایک قید خانے میں بند ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی قومی شناخت سے دور دکھیلے جا رہے ہیں۔

گلگت کے ایک آزادی پسند نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت میں نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کبھی قومی سوال کو اُٹھنے نہیں دیا گیا ہے،عوام کو بنیادی مسائل میں اتنا الجھایا گیا ہے کہ عوام شعور سے کوسوں دور ہیں وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات زندگی کے لیے تڑپ رہے ہیں اور کوئی خاص گلگت کی اپنی قومی پارٹی نہیں ہے جو عوام کو موبلائز کر سکے،وہی پاکستانی پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں ہیں جو پاکستان میں ہیں،جسکی وجہ سے عوام کو اپنی پہچان سے دور کر کے اسلام کو ایک قوم کے طور پر پیش کر کے ہمیں پاکستان کے تابع کیا گیا۔

گلگت کی آبادی کا تقریبا چالیس فیصد شیعہ،کچھ اسماعیلی اور باقی سنی ہیں۔نگر،اسکردو،کرمنگ میں شیعہ مسلک کی بڑی تعداد جبکہ ہنزہ،،غزر میں اسماعیلی اکثریت سے ہیں سنی دیگر علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ریاست نے گلگت پر قبضے کے بعد سے اسلامی مذہبی کارڈ کو یہاں بھی پروان چھڑایا اور کئی دفعہ یہاں مذہبی فسادات بھی اسی فوج کے کارنامے ہیں۔

کچھ نوجوان حلقوں میں اپنی قومی شناخت کو لے کر اُبھار کو دیکھا جا رہا ہے جب بجلی،آٹے کا بحران ناجائز ٹیکسوں کی بوجھ کے خلاف احتجاج ہوتے ہیں تو یہ حلقے پاکستان مخالف نعرہ بھی لگاتے دیکھے جا سکتے ہیں،انکے مطابق گلگت سے غیر مقامی فورسز ایف سی اور رینجرز کو فلفور نکالا جائے۔

ایسے کئی واقعات ہیں جنکو دبایا جاتا ہے جب فورسز پہاڑی علاقوں میں بچوں و دیگر کو اپنی جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں عالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات کٹھ پتلی آزاد کشمیر میں رپورٹ بھی ہوئے،ہمارے ذرائع بتاتے ہیں کہایسے واقعات گلگت میں بھی ہوتے ہیں مگر بدنامی کی وجہ سے انکو منظر عام پر نہیں لایا جاتا ہے۔

گزشتہ روز سیلاب سے متاثر افراد نے جب اپنی مدد آپ واپس اپنے گھروں کو بنانے کی کوشش کی تو حکمرانوں نے انکے اوپر بلڈوز چلائے اور یہ فوٹیج سوشل میڈیا میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسی طرح قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں طلبہ و طالبات کو جامع انتظامیہ نے فیسوں کی عدم ادائیگی کا بہانہ بنا کر امتحان دینے سے روک لیا جس کے خلاف طلبہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے باہر روڈ بند کرکے احتجاج کیا۔ طلباء کے مندرجہ ذیل مطالبات ہیں۔
1- طلباء پر مشتمل آڈٹ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے
2- فیسوں کو مکمل طور پر معاف کیا جائے۔
3- نئے ہاسٹلز، مختلف ڈپارٹمنٹس میں نئے کلاس رومز، اور جدید سہولیات سے لیس طلبہ لائبریری کے فلفور قیام، اور تیز ترین انٹرنیٹ سروس کی فراہم کیا جائے۔
طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے۔

آٹے کی قلت اور بجلی لوڈشیڈنگ کے خلاف پورے گلگت میں ہڑتالوں و احتجاج کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے۔گلگت کے عوام کو سماجی مسائل میں اتنا الجھا گیا ہے کہ عوام کے پاس کچھ اور سوچھنے و سمجھے کی فرصت نہیں ہے،ایک خوبصورت سرزمین جسکی اپنیی قومی شناخت ہے آج ایک پراکسی ملک کے قبضہ میں محتاج بن چکا اور اور گلگت بلتستان آج مسائلستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں