مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4902 ویں دن جاری رہا۔
بلوچستان کے ضلع خضدار سے سیاسی سماجی کارکنان محمد علی بلوچ، عبدالرازق بلوچ اور دیگر مکاتب طبقہ فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔تنظیم کے وائس چرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انسانی حقوق اور جبری لاپتہ افراد کے لیے بلند کئے جانے والے قومی صداؤں کے پاداش میں جبر واستبداد کا ایک ایسا تسلسل اور اس میں بتدریج شدت لایا گیا ہے کہ یزیدیت بھی شرما جائے۔
انہوں نے کہا کہ پنجگور، خاران،قلات اور بولان کے ساتھ ساتھ نومبر کے اوائل میں ڈیرہ بگٹی، ہرنائی بلوچستان کے مختلف علاقے فوجی کاروائیوں کے شدید نشانے پر رہیں۔ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دوسری جانب قلات،سوراب، نال گریشہ خضدار میں خفیہ اداروں کے زیر سرپرستی سرگرم عمل بلوچ کش مافیا کے کارندوں نے علاقے کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے جبری اغوا نما گرفتاریوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ بھی بڑی آب تاب کے ساتھ جاری ہے۔ جبکہ نال گریشہ میں بھی بلوچ کش مافیا کے دہشتگردوں کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں پاکستانی عسکری اداروں کی ننگی جارحیت کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے حقیقت میں خفیہ اداروں کے منظور نظر یہ گماشتے بلوچ قوم کو یہ دھمکی نما پیغام دینا چاہتے تھے کہ جاری نسل کشی اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا عمل ابھی مدہم سی شکل میں سر انجام پا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ تربت کے علاقے گوکدان اور کئی علاقوں کے عوام سیکورٹی فورسز کے محاصرے میں ہیں۔