ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں 5ستمبر کو ایک سرکاری کالونی میں مکران کی سرگرم خاتون سماجی آرٹسٹ اور عورت امپاورمنٹ کے لیے کوشش کرنے والی 28 سالہ شاہینہ شاھین پر دو گولیاں چلا کر قتل کیا گیا۔
اسی روز محراب گچکی ولد نواب زادہ محمد امین گچکی ساکن شاہی تمپ زخمی حالت میں ایک گاڈی پر اسے ہسپتال لے آیا۔ ڈاکٹروں نے گہرے زخم اور خون زیادہ بہنے کے سبب شاہینہ کے موت کی تصدیق کی۔
اس کے بعد محراب گچکی لاش ہسپتال میں چھوڑکروہاں سے فرار ہوگئے۔
ٹیچنگ ہسپتال تربت ایک سرکاری ادارہ ہے یہاں پہ پولیس اور ایف سی دونوں ہمیشہ ڈیوٹی پر موجود رہتے ہیں جس کا مقصد ہسپتال کی سیکو رٹی کے ساتھ اسی نوعیت کے کیسز کو دیکھنا ہوتا ہے۔
ستمبر کی پانچ تاریخ کو جب شاہینہ بلوچ کی لاش ہسپتال لائی گئی تب ایمرجنسی وارڈ کی اطلاع پر پولیس کے دو اہلکار اور ایف سی تفتیش کے لیے گئے، محراب سے بات کی لیکن گرفتاری کے بجائے اسے وہاں سے جانے دیا گیا۔
شاہینہ کی لاش 12 بجے ہسپتال لائی گئی لیکن اس قتل کو دبانے کی کوشش میں لاش شام کو فیملی کے حوالے کیا گیا جس کے مقاصد میں قاتل کو فرار ہونے کا موقع دینا ایک اہم سبب تھا۔
محراب گچکی کون ہیں
محراب گچکی اس شخص کے نواسے ہیں جنہوں نے مراعات اور لالچ کی وجہ سے مکران کی آزاد ریاست کاپاکستان کے ساتھ عوام کی رائے لیئے بغیر فیصلہ دیا۔
نواب بھائی خان مکران کا والی تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اس نے عوام کو اعتماد میں لیئے بغیر کراچی جاکر مکران کا پاکستان کے ساتھ سودا کردیا۔
پاکستانی ریاست تب سے نواب بائیان کی خاندان کو ماہانہ بنیاد پر وظیفہ دیتی آرہی ہے اور اسے ایک خاص پروٹوکول بھی حاصل ہے۔
محراب گچکی جو نواب زادہ امین اللہ گچکی کے بیٹے اور بائیان کے نواسے ہیں نے پانچ مہینہ قبل شاہینہ شاہین کو محبت کے دام میں پھنسا کر ان سے شادی رچائی۔ شادی کے بعد شاہینہ کو کہا گیا کہ وہ اس بارے لب کشائی نہ کریں اور شادی کو خفیہ رکھا جائے۔
پی ٹی سی کالونی تربت میں اکبر گچکی نامی شخص جو پی ٹی سی ایل کے محکمے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہا ہے محراب گچکی کا قریب ترین عزیز ہے۔ اس کی سرکاری رہائش گاہ میں دونوں شفٹ ہوگئے اور قتل تک اکبر گچکی کی سرکاری رہائش گاہ میں مقیم رہے۔
شادی کے بعد شاہینہ مکمل گمنام ہوگئی، اس کے فون نمبر بند ہوگئے، سماجی اور آرٹ سے منسلک تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔کسی کو اس کے متعلق معلوم نہیں رہا کہ کہاں پر ہیں۔ شاہینہ کی فیملی میں شامل ماں اور بہنوں تک کو ان سے رابطہ نہیں کرنے دیا گیا حالانکہ وہ شادی کے بارے میں واقف تھیں۔ شاہینہ کی فیملی کے ایک ذرائع کے مطابق محراب گچکی نے شاہینہ اور ان کی والدہ کو آپس میں ملنے یا شادی کے متعلق بات پھیلانے پر سختی سے منع کیا تھا اور دہمکی دی تھی کہ بات پھیلانے کی صورت میں اس کی ماں، چاروں بہنوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔
محراب گچکی کا کردار
محراب گچکی کے فرسٹ کزن دیدگ گچکی مشہور مولوی مفتی شاہ میر عزیز کے ساتھ ڈیتھ اسکواڈ چلاتا ہے۔
شاہی تمپ اور کوشکلات کے نزدیک انکے ٹریننگ سینٹر ہیں جہاں پہ مفتی شاہ میر عزیز اور ملا گلام اللہ لشکر خراسان کے لیے بھرتی کرتے اور باقاعدہ تربیت دیتے ہیں۔
دیدگ گچکی سرکاری خفیہ ادارے کے ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ ہے اور محراب گچکی اس اسکواڈ کا ایک اہم کارندہ ہے۔مفتی شاہ میر عزیز، مولوی گلام اللہ اور دیدگ گچکی اکھٹے مل کر بلوچ سیاسی کارکنون اور سوشل ایکٹیوسٹ کو اغواﺅ قتل کرنے میں ملوث ہیں۔
اسی نیٹ ورک نے سےنکڑوں بلوچ اغواء و قتل کیے ہیں جن میں مشہور تریں واقعہ جلاوطن سیاسی کارکن حیدر کے بی کا اغواءہے، اسے تین سال بعد رہا کردیا گیا جبکہ حیدر کے بی کے دو ساتھیوں کو بھی اسی ڈیتھ اسکواڈ نے اغواء کیا، اس کے ساتھ سیاسی کارکن ابوالحسن کریم بخش کو شھید کیا جبکہ آپسی اختلاف کے باعث اپنے دو کارندوں کو بھی اس گروہ نے پیدارک کے قریب قتل کردیا۔ محراب گچکی اس گروہ کا ایک اہم کارندہ ہے۔
شاہینہ شاھین کے ساتھ شادی کا ڈرامہ اسے آسانی کے ساتھ قتل کر کے گھریلو ناچاکی یا غیرت کا رنگ دینا مقصود تھا کیوں اس گروہ کے نزدیک شاہینہ کی سماجی سرگرمیاں غیر مذہبی اور ناقابل قبول تھیں۔ مفتی شاہ میر کی سربراہی میں لشکر خراسان نے شاہینہ کو یوں سرعام قتل کر کے بڑا پھنگا لینا مناسب نہیں سمجھا جس کا آسان راستہ شادی چنا جس کے ذریعے اس کی سرگرمیوں کو روکنا مقصود تھا مگر شاہینہ اس کے باوجود اپنے کاز سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھیں۔ ان کا ارادہ اکتوبر کو ایک گرینڈ آرٹ نمائش منعقد کر کے لڑکیوں کے ٹیلنٹ کو سامنے لانا تھا۔ اس نمائش کی تیاریاں وہ فروری اور مارچ سے کررہی تھیں لیکن کرونا وبا کی وجہ سے انہیں انتظار کرنا پڑا۔
محراب گچکی شاہینہ کو قتل کرنے کے دو دن تک شاہی تمپ میں اپنی فیملی کے ساتھ تھا جہاں لوگوں سے باقاعدہ ان کی ملاقات اور فون پر بات چیت رہی۔
اس کے بعد تین دن وہ تربت سے 25 کلومیٹر مشرق میں شاہرک نامی گاﺅں اپنے رشتہ داروں کے ہاں رہا۔ پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی گئی لیکن اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔
شاہینہ کی فیملی نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر نجیب پندرانی سے ملاقات کی اور قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تو ڈی پی او نے نہ صرف یہ اعتراف کیا کہ قاتل بہت بااثر ہے بلکہ یہ تک کہا کہ ان کے تعلقات ایران اور افغانستان تک وسیع ہیں لہذا ان کی گرفتاری ممکن نہیں۔