کراچی : بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4923 دن ہوگئے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچستان بار کے جنرل سکریٹری میر چنگیز بلوچ نے ساتھیوں کے ہمراہ اور شرافی ملیر کے سماجی رہنما سلیم شہزاد نے اظہارِ یکجہتی کی۔
کراچی سے جبری لاپتہ عبدالحمید زھری کی فیملی بھی احتجاجی کیمپ میں موجود رہے، عبدالحمید زہری کی بیوی نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ اسکے شوہر کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سندھ پولیس کی مدد سے اٹھا کر جبری لاپتہ کیا ہے۔
ا نھوں نے کہاہے کہ انہوں نے احتجاج کے تمام تر طریقہ کار اپنائے ، لیکن اب تک انہیں انکی کوئی خیر خبر نہیں ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں ملکی عدالتوں میں پیش کرکے قرار واقعی سزا دیجائے، اگر اس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے تو انہیں رہا کیا جائے –
اس موقع پر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم کو بلوچستان کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونا ہے اور فوجی آپریشن کے خلاف ہر سطح پر اپنا ردعمل دکھانا ہے ، خاموش بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار نہیں کرنا ہے ۔
انھوں نے کہاکہ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے ، پیسے اور مفادات کے چکر میں اپنا ایمان بیچ چکے ہیں ، انکی آنکھیں بےنور ، کانیں سننے کے قابل نہیں ہیں ، احساسات دم توڑ چکی ہیں ، ضمیر مر چکی ہے ۔ بلوچیت سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے ،اپنوں کے غم بھول چکے ہیں ، قبلہ تبدیل ہو چکا ہے۔
ماما نے جبری گمشدگیوں میں ملوس عناصر کو خبردار کرتے ہوئے کہاکہ اپنا ضمیر کا سودا کر کے ناچتے ہو جو ہڈیاں وہ پھینکتے ہیں اس کے لئے گرتے ہو اتنا مت گرو کہ اپنوں کی نظروں میں غیر بن جاؤ.
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان آپریشن فورسسز کی سفاکیت پر انسانی حقوق کے علمبردار ، سول سوسائٹی ، بین الاقوامی میڈیا کی خاموشی معنی خیز ہے اگر میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے اسی طرح خاموش رہے تو یہ ایک المیہ ہو گا ۔ اور ان اداروں کے روح مسخ ہو جائیں گے ۔
انھوں نے کہاکہ لیڈروں اور تنظیموں کے انتشار اور نااتفاقی قومی تاوان کا پیش خیمہ ہو گا اب وقت آ گیا ہے، لیڈر شپ اپنے ذاتی پسند ، ناپسند ، ہیروازم ، جمعداری ، شخصیت پرستی اور انسانیت سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں سوچیں ۔
کیوں کہ اسوقت پاکستانی فوج کی بلوچستان کے گلی گلی نگر نگر اور ہر پہاڑی چوٹیوں پر فوجی آپریشن جاری ہے۔
مگر بلوچستان کے لیڈر دانشور اور سیاسی جہدکار ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں ، صرف فیسبک اور سوشل میڈیا میں اپنے آقاؤں کی ترجمانی میں لگے ہوئے ہیں ، کیا بنے گا اس قوم کا جس کے معصوم بچے ، خواتین ، اور نوجوان بمبوں اور توپوں کا نشانہ بن رہے ہیں.