مقبوضہ بلوچستان: 2022 بلوچ تاریخ کا ایک اور سیاہ سال،چھ سو سے زائد جبرگی گمشدگیاں،دو سو سے زائد قتل

0
555


ہندوستان پر برطانیہ کی جبری قبضہ کے اختتام پر جہاں برطانیہ نے اپنے مقاصد کے لیے اقوام کی زندگیوں اور انکی زمینوں کا فیصلہ کیا اورمحمد علی جناح جیسے عیاش ایجنٹ کے ذریعے پاکستان کو وجود میں لانے کے ساتھ اس خطے میں خون و انسانی حقوق کی پالالیوں کا وہ کالا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔
صدیوں سے اپنی شناخت رکھنے والی بلوچ قوم کو پاکستان نے بزور طاقت قبضہ کر کے اپنا غلام بنانے کے ساتھ خون و کشت کی بھیانک کھیل کا آغاز کیا،یہ سلسلہ1948 سے جاری ہے مگر اس میں تیزی2006 کے بعد آنی شروع ہوئی،مختصرا ہم سال2022 میں پاکستانی جارحیت کی اعداد و شمار اپنے قارعین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

سال 2022 میں مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوجی جارحیت میں اضافہ ہوا۔بلوچ اداروں اور ہماری ریکارڈ کے مطابق سال 2022 میں پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں پانچ سو سے زائد فوجی آپریشنز میں عوام کو جارحیت کا نشانہ بنایا، جس میں ساڑھے چھ سو افراد کو جبری گمشدہ کرنے کے ساتھ284 نعشیں برآمد ہوئیں۔39 لاشوں کو بغیر شناخت یا مسخ ہونے کی وجہ سے بغیر ڈی این اے کے دفنایا گیا،جبکہ87 لاشوں کے قتل یا مارنے کے وجوہات ڈھونڈنے میں ہم قاصر رہے۔

اسی سال فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں،زیر حراست قتل،یا فورسز کی فائرنگ سے142 بلوچ جابحق ہوئے۔

بلوچ تنظیمیں یا میڈیا دعوی کرتے ہیں کہ پاکستانی فورسز نے دوران جارحیت ایک ہزار سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ پانچ سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا،اور زمینی و فضائی بربریت سے ڈیڑھ ہزار سے مال مویشی مارے گئے اور سو سے زائد فورسز اپنے ساتھ لے گئے۔

پاکستان قید خانوں یا اذیت خانوں سے75 افراد بازیاب ہوئے جو اسی سال جبری گمشدہ کیے گئے۔25 افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے ساتھ دس کو زیر حراست قتل کیا گیا۔

پاکستانی فوج جارحیت جو گزشتہ سال جاری رہی،یقینایہ سال یقینا بلوچ کے لیے کم تکلیف دہ نہیں ہو گا،۔اس خطے کے اقوام بالخصوص بلوچوں کی جدوجہد ایسے مقام پہ پہنچ چکا ہے جو انہیں کامیابی سے منزل کی جانب لے جانے کا سبب بنے گا۔ان کی تحریک کی شدت نے آج دنیا پہ بھی ان کی طاقت افشاں کیا ہے۔ ان کی کامیابیوں سے پاکستان حواس باختہ ہوچکا ہے جہاں آئے روز عام بلوچ اس کی جبر کا نشانہ بن رہاہے۔عالمی سیاست کی اس رسہ کشی نے 2022 میں مختلف اطراف میں کروٹ بدلی۔ پاکستان کی جانب، تو یہاں وہی پرانی پالیسیاں جوں کے توں رواں ہیں۔آئے روز فوجی جارحیت، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا وغیرہ۔یعنی کہہ سکتے ہیں پاکستان کی نوآبادیاتی پالیسیوں میں آئے روز شدت ہی آرہی ہے۔جس کا نشانہ نہ صرف بلوچ بلکہ خطے میں بسنے والے دیگر محکوم اقوام پشتون،کشمیری،گلگت بلتستان،کچھ ہی سہی سندھی بھی بن رہے ہیں۔ معاشی طور پہ خستہ حال پاکستان شاید زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے اسی لیے آج کل وہ مغرب سے مایوس ہوکر روس اور چائنا کا لے پالک بننے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن روس کی حالیہ جنگ جس میں اسے بڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ اہے تو ایسے میں وہ پاکستان جیسے ملک کو سہارا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کے علاوہ بھارت کے عنصر کو دیکھ کر بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ روس بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح نہیں دے رہا۔ لہذا حالیہ عالمی سیاست میں پاکستان تنہائی کا شکار ہورہا ہے جو یہاں بسنے والے محکوم اقوام کے لیے نیک شگون ہے۔
ان حالات سے فائدہ اٹھا کر محکوم اقوام کو یک مشت ہونا پڑے گا اور اگر وہ تمام ایک ہی پیج پہ آگئے تو پاکستان بے ساکیوں کے سہارے بھی اپنا وجود سنبھالنے سے قاصر ہوگا۔ اس ضمن میں بلوچوں کی جدوجہد تو شدت کے ساتھ جاری ہے لہذا دیگر اقوام کو بھی بلوچوں کے نقش قدم پر چل کر آگے بڑھنا ہوگا اسی میں ان کی بقاء اور پاکستان کا زوال ہے۔ ایک نیگ شگون محکوم اقوام کشمیری اور گلگت بلتستان کے عوام ریاست کی قبضہ کے خلاف احتجاج کرتے دیکھے گئے ہو سکتا ہے سماجی مسائل انکو اپنی قومی شناخت کی سوال کے لیے ریاست کے خلاف مضبوط جہد کی جانب لے آئے گی،دوسری جانب پشتون بھی اپنی سہی فوج کے خلاف احتجاج پر ہیں لیکن انکی بلند آوازمنظور پشتین اپنی قومی شناخت کو لے کر پشتون قوم کی مستقبل کا فیصلہ یا اپنی مقاصد سے کوسوں دور ہے ہو سکتا ہے پشتون نئے سال قابض ریاست کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اوراپنی آزادی کی مانگ کریں۔
بلوچ قوم نے 2022 میں نئی تاریخ رقم کی،شاری بلوچ نے 26اپریل کو کراچی میں چائینز سامراج پہ فدائی حملہ کرکے خود کو تاریخ میں منفرد مقام پہ پہنچایا۔
عورت نے جہاں عام معاشرتی زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں وہاں حوا کی بیٹی مزاحمتی یا جنگی میدان میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہ چاہے ویتنام کی ترنگ بہنوں کا آزادی کی جنگ میں کارنامے ہو ں، سندھ کی بیٹی بلقیس (باگھل بائی) کا سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت، افغان شیرنیاں بخت نامہ، ملالئی انا، نازوتوخی، ہندوستان کی جھانسی کی رانی، رضیہ،رانی ویلیونچار، کمانڈر کھلی، فرانس کی جون آف آرک یا پھر بلوچستان کی بانڈی،حانی، مائی بیبو، بی بی زینب، گل بی بی۔۔۔ ان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہیں جنہیں یہ اقوام فخریہ بیان کرتے ہیں۔
”ماضی خود کو دہراتی ہے“ یہ قول مشہور ہے۔ جس طرح بلوچ تاریخ میں عورتوں نے گراں قدر کارنامے سرانجام دیے ہیں انہی کے نقش پا پہ چل کر گزشتہ دنوں ایک اور بلوچ بیٹی خود کووطن پر نچارو کرگئی۔ بلوچ بیٹی ”شاری“ کا یہ حملہ فدائی تھا، یہ بلوچ جنگِ آزادی میں پہلا موقع ہے جہاں ایک عورت قوم کے روشن مستقبل کے لیے دشمن پہ بجلی بن کر گرپڑی۔ ویسے بھی فدا ئی حملہ عورت کی ایجاد ہے جہاں 1780ء میں جنوبی ہندوستان میں رانی ویلیونچیار کی ایک کمانڈر”کمانڈرکھلی“ نے ایسٹ انڈیا کمپنی پہ حملہ کیا جس کی وجہ سے اس جنگ میں ہندوستانیوں کو فتح نصیب ہوئی۔
اکتیس سالہ شاری بلوچ کیچ کے علاقے نظرآباد سے تعلق رکھتی تھی۔ شاری کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور وہ خود بھی ایم اے، ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرچکی تھی اور اب زولوجی میں ایم فل کرناچاہتی تھی لیکن وطن کی دفاع نے انہیں مزید تعلیم کے حصول کا موقع نہیں دیا اور یوں وہ 26اپریل کو کراچی میں چائینز سامراج پہ فدائی حملہ کرکے خود کو تاریخ میں منفرد مقام پہ پہنچایا۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی اداروں میں تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچ چکی تھی کہ قوم اور دنیا کو جگانے کے لیے کچھ ایسا کارنامہ سرانجام دیا جائے جو انہیں میرے وطن اور قوم کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کرے۔لہذا اسی نظریے اور فکر نے انہیں بہروں کو جگانے کے لیے اکسایا۔ وہ جانتی تھی کہ غلامی سے نجات کے لیے جب تک منفرد عمل نہیں کیا جائے گا تب تک منزل پہ پہنچنا ممکن ہی نہیں اور یوں انہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال بلوچ تاریخ میں ناپید ہے۔ شاری بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ قوم اور دیگر آزادی پسندقوتوں نے جہاں اس امر کو زوروشور سے سراہا تو دوسری جانب قابض کے چند گماشتے اس کے نمک کا قرض ادا کرتے رہے لیکن دنیا شاید ہے کہ نمک کے مقابلے میں مٹی کا قرض ادا کرنے والوں کا عمل انہیں تاابد سرخرو رکھتی ہے۔ ویسے بھی جنگوں اور مزاحمت سے نابلد افرد احمقانہ اور قیاس آرائیوں پہ مبنی تنقید کا سہارا لیتے ہیں لیکن جنہیں جنگی علوم پہ دسترس حاصل ہوں یا وہ اس عمل کا حصہ ہوں تو وہ ہر اس عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو قوم میں حرارت پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کی بیٹی شاری بلوچ کا یہ عمل جو بلوچ تاریخ میں سب سے منفرد مقام کا حامل ہے، طلوع صبح کی نوید ثابت ہوگی۔بلوچ قومی رہنماؤں اور پارٹیوں کو چائیے کہ وہ پاکستانی مظالم کے خلاف ایک گھیراؤ جیسی حکمت عملی اپنائیں تاکہ پاکستان جیسے مذہبی شدت پسند ملک کی انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے لانے میں وسیع حکمت عملی اپنائی جائے اور ہندوستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک کو سفارتی حوالے باور کرایا جائے کہ پاکستان کی وجود اس خطے کے لیے ایک زہر اور کینسر سے بھی بدنما داغ ہے اور یہ وبا آہستہ آہستہ سب کو اپنی لپٹ میں لے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں