پاکستانی زیر قبضہ کشمیر میں تیرہ سالہ بچے کی خودکشی۔

0
22

پاکستانی جہاں معاشی بدحالی کا شکار ہے اور پورے پاکستان میں کسی شریف انسان کا زندگی گزارنا اجبیرن ہو گیا ہے،تو دوسری طرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں حالت بد سے بد تر ہو رہے ہیں،رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز تنویر ضیاء نامی بچہ جسکی عمر بمشکل بارہ تیرہ سال ہے ریشن کے ایک دوکان میں داخل ہوتاہے دوکاندار موجود نہیں تھا جسکی وجہ سے وہ باہر نکلتا ہے کچھ سوچ کے دوبارہ دوکان میں داخل ہوتا ہے وہاں سے ایک پرفیوم اور ایک گھڑی اٹھا کے باہر نکلتا ہے باہر کوئی شخص بچے کو دیکھ رہا تھااسے کیمرے میں محفوظ کرتا ہے۔ اچانک چور چور کا شور مچا کے بچے کو پکڑ لیتے ہیں آس پاس کے دوکاندار اکھٹے ہوتے ہیں اور پولیس کو بلایا جاتا ہے۔

پھر کیا جیسے ان ظالم دکانداروں کو موقع مل گیا ہو اور اس معصوم بچے کے اوپر الزامات کی بھر مار کی جاتی ہے۔
مختلف دوکاندار دعویٰ کرنا شروع کرتے ہیں کوئی کہتا ہے ایک مہینہ پہلے میرے دس ہزار روپے چوری ہوے تھے کوئی کہتا ہے پندرہ ہزار کوئی کہتا ہے میرے گاڑی کا جیگ گم ہوگیا تھا یہ سارے الزامات تیرہ سالہ بچے کے اوپر لگاکے اسے مجرم ٹھرایا جاتا ہے زدوکوب کیا جاتاہے اتنے میں پولیس والے بچے کو اٹھاکر لے جاتے ہیں گرین لشٹ چوکی میں بند کیا جاتا ہے بچے کا باپ ریٹائرڈ صوبیدار ضیاء الحق کو بلایا جاتا،وہاں میں سے ایک شخص تو انتہا کرتا ہے کہ دو مہینہ پہلے میرا 80 کلو وزنی ترازو گم ہوگیا تھا اسے بھی اس نے چرایا ہوگا۔ جس کی قیمت 25 ہزار روپے تھی۔ معروف سماجی کارکن اور شاعر اسلم شیروانی اس وقت مداخلت بھی کرتا ہے کہ 80 کلو وزنی ترازو یہ بچہ کیسے اٹھا سکتا ہے؟

بلاآخر بچے کا باپ اپنی شرافت اور خاندانی عزت کے پیشِ نظر ساروں کے نقصانات کے ازالے کا وعدہ کرتا ہے اسلم شیروانی صاحب ترازو کی قیمت 25 کے بجائے پانچ ہزار لگاتا ہے۔
گزشتہ دو سال کے دوران ریشن میں کیے گیے چوری کے الزامات بچے پر لگائے جاتے ہیں بچے کا باپ نقصانات کے ازالے کا وعدہ کرکے صلح کرتا ہے۔ بچے کو گھر لے جاتے ہیں گھر میں بچے کے ساتھ کوئی جھگڑا نہ کریں اسی لیے بچے کا ماموں بھی ساتھ آتا ہے۔ بچہ گھر میں رات گزارتا ہے صبح امی ناشتے کے لیے بچے کو بلاتی ہے بچہ ایک منٹ میں واپس آتا ہوں کہہ کر باہر نکلتا ہے سیدھا پرپیش گاوں کی طرف جاتا ہے امی گھر کے صحن میں بچے کو دیکھ رہی ہے اسے شک پڑتا ہے بھائیوں کو فون کرتا ہے کسی کا بھی نمبر نہیں لگتا بچہ پرپیش پل کے وسط میں جاکے کھڑا ہوجاتا ہے امی دیکھ رہی ہے امی ہاتھ ہلا کر واپس آنے کو کہتی ہے بچہ ایک نظر امی کی طرف دیکھ کے ایک ہاتھ ہلا کے چھلانگ لگاتا ہے خود کو دریاء کے بے رحم موجوں کے حوالے کرتا ہے۔ امی بے بسی کی تصویر بنی دیکھ رہی ہے بچے کی لاش برنس میں برآمد ہوتی ہے اسے منوں مٹی تلے دفنایا جاتا ہے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ برس ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں اور کچھ بچوں کو بغیر کسی ثبوت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ایسے بچے معاشرے میں پھر بلاوجہ برائی کی جانب یا منشیات کا استعمال کرتے ہیں یا مذہبی شدت پسندی کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں