جبری گمشدگیوں پر حکومتی و عدالتی کمیشنز مسئلے کوٹالنے، طول دینے، بار ذمد داری منتقل کرنے و فوج کے ساتھ اعانت جرم کا کھیل تو نہیں؟

0
350

تحریر : رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

جبری گمشدگی کی سفاکانہ پالیسی ظالم و جابر حکومتوں کے ہاتھوں میں ایک ایسا ہتھیار ہے جسے دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں بڑی بے رحمی سے مخالف آوازوں کو دبانے یا خاموش کرانے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ رواں صدی کی پہلی دہائی سے ہی ریاست پاکستان نے بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف اپنے نام نہاد کائونٹر انسرجنسی پالیسی میں جبری گمشدگی کو بطور ایک آلہ جبر سرفہرست رکھا ہے ۔ مقبوضہ بلوچستان کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں روز محب وطن بلوچ سیاسی رہنمائوں، کارکنوں، دانشوروں، بالخصوص بلوچ طلباء کوفوج، فرنٹیر کور، انٹیلیجنس اہلکار اور ان کی نگرانی میں تشکیل دی ہوئی نجی مسلح جتھوں کے کارندے جبری اٹھا کر لاپتہ کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تحفظ کیلئے سرگرم کارکنوں کو،ان صحافیوں کو جو ریاستی اداروں خصوصاً فوج، فرنٹیئر کور، رینجرز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی پر لکھتے ہیں، اور شہریوں کے دستوری، قانونی اور جمہوری حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے وکلاء کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جانے یا پھر ہدف بناکر قتل کرنے کے واقعات بھی تسلسل کے ساتھ رونما ہوتے رہے ہیں۔ جبری گمشدگی کی پالیسی کو پاکستان کی خونخوار فوج و انٹیلیجنس ادارے نہ صرف مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے رہے ہیں بلکہ اس کی استعمال کا دائرہ مقبوضہ سندھ، پختونخوا، گلگت بلتستان، کشمیر اور جنوبی پنجاب تک پھیلا دیا گیا ہے۔ جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والوں میں سب سے بڑی تعداد محکوم بلوچوں کی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر پشتون اور تیسرے نمبر پر سندھی [ بشمول مہاجر] ہیں۔ جبری گمشدگیوں کی غیر انسانی پالیسی کے خلاف اب تک سب سے طویل، موثر، مسلسل و انتھک جدوجہد بلوچوں نے کی ہے اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اس طویل و انتھک جدوجہد میں پیش پیش رہی ہے گو کہ پشتون بھی بڑی تعداد میں رواں صدی کی پہلی دہائی کے آغاز سے ہی جبری گمشدگی کا نشانہ بنتے رہے ہیں مگر اس ریاستی سفاکیت کے خلاف آواز اٹھانے سے قبل پشتونوں نے کئی سال سراسیمگی و خاموشی میں گزارے۔ پختونخوا میں جبری گمشدگی کے دلخراش مسئلے پر خاموشی کے اس تالاب میں پہلا پتھر پی ٹی ایم نے پھینکا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے طوفانی لہروں کا روپ دھار لیا۔

اب رواں صدی کی تیسری دہائی کا تیسرا سال شروع ہوچکا ہے اور مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج اور دوسرے سکیورٹی ادارے جبری گمشدگی کو بطور آلہ جبر نہ صرف اب بھی مسلسل استعمال کررہے ہیں بلکہ روز بروز جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں محب وطن، زندہ ضمیر اور روشن دماغ بلوچوں کی جبری گمشدگی کے واقعات محض مقبوضہ بلوچستان تک محدود نہیں ہیں بلکہ سندھ اور پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طلباء بھی ان درندہ صفت پاکستانی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی، حراسمنٹ اور نسلی امتیاز کا مسلسل نشانہ بنتے رہے ہیں۔

جب پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس نے “جبری گمشدگی” اور “ہدف بنا کر قتل کرنے” کو بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف بڑے پیمانے پر بطور پالیسی استعمال کرنا شروع کیا تو مقبوضہ بلوچستان کی آزادی خواہ قومی پارٹی “بلوچ نیشنل موومنٹ” اور بلوچ طلباء تنظیم ” بی ایس او” نے بروقت اس غیر انسانی پالیسی کے خلاف موثر آواز بلند کرکے مقبوضہ بلوچستان میں ریاست پاکستان کے “جنگی جرائم” اور “انسانیت کے خلاف جرائم” کو بے نقاب کرنے لگے۔ ریاست پاکستان نے اپنے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی پالیسی ترک کرنے کے بجائے بی این ایم اور بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا تاکہ بلوچ قوم کی ان دو موثر آوازوں کو ختم و خاموش کرسکے۔ بی این ایم کے چیئرمین واجہ غلام محمد بلوچ سمیت درجنوں مرکزی رہنمائوں اور سینکڑوں متحرک کارکنوں کو جبری گمشدگی، زیر حراست ازیت رسانی اور ماورائے عدالت کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا اسی طرح بی ایس او آزاد کے سابق مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید بلوچ اور سابق چیئرمین واجہ زاہد کرد سمیت ہزاروں بلوچ طلباء اور نوجوان آج بھی ریاستی ازیت گاہوں میں جبری لاپتہ ہیں اور ہزاروں ایسے گھبرو نوجوان “مارو اور پھینک دو” کی ریاستی پالیسی کے تحت ماورائے عدالت قتل ہوچکے ہیں۔ جب بی این ایم اور بلوچ طلباء خصوصاً بی ایس او آزاد کے خلاف کریک ڈائون بڑھ گیا تو “جبری گمشدگی” اور “مارو اور پھینک دو” کی ریاستی پالیسی سے متاثرہ خاندانوں نے خود آگے بڑھ کر “وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز” کے نام سے ایک غیرسیاسی تنظیم تشکیل دی اور مقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگی جیسے ریاست کی “انسانیت کے خلاف جرائم” کو بے نقاب کرنے کی تسلسل کو جاری رکھا۔ بلوچوں کی یہ انتھک جدوجہد بالآخر اس انسانی المیہ کی طرف عالمی توجہ حاصل کرنے اور ریاست پاکستان پر دبائو کی راہ ہموار کی۔ انسانی حقوق کی تحفظ سے متعلق تنظیم اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے کئی ذیلی اداروں، امریکی کانگریس اور کانگریس کی خارجہ کمیٹی، برطانیہ و کنیڈا سمیت متعدد ممالک کے کئی وزراء اور ارکان پارلیمان کی طرف سے مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بالخصوص “جبری گمشدگی” و “مارو اور پھینک دو” کی ریاستی پالیسی پر اظہار تشویش کے بیانات آنے لگے۔ بلوچ عوام کی اسی جدوجہد کے باعث جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ کی ورکنگ گروپ نے 2011 میں اپنا ایک وفد پاکستان بھیجا۔ اس اہم انسانی مسئلے کے حل کے بارے میں اپنی سنجیدگی اور با اختیار ہونے کا جھوٹا تاثر دینے کیلئے اس وقت کے پاکستانی حکومت نے جبری گمشدکیوں کی تحقیقات کرنے، لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے اور اس سنگین جرم میں ملوث افراد اور اداروں کا تعین کرکے انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے یکم مارچ 2011 کو جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا۔ لیکن اصل میں مذکورہ بالا کمیشن قائم کرنے کا پس پردہ مقصد نہ صرف فوج اور انٹیلیجنس پر تنقید کو کم کرنا تھا بلکہ اس جرم میں کھٹپلی حکومتوں و کینگرو کورٹس کی فوج کے ساتھ درپردہ معاونت کو مربوط کرنا، ان کی نا اہلی کو چھپانا اور مسئلے کو ایک حکومت سے دوسرے حکومت تک ٹالتے رہنا تھا۔ پاکستان کے بارے میں مشہور ہے کہ جو کام نہیں کرنا ہوتا ہے تو اسے کسی کمیشن یا کمیٹی کے سپرد کرکے وقت گزرنے کے ساتھ دبادیا جاتا ہے یہ کمیشن و کمیٹی بنانے کا کھیل پاکستان میں بہت پُرانا ہے۔ 8 ستمبر 2020 کو انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس کے لیگل اور پالیسی ڈائریکٹر ایان سیڈرمین نے اپنے ایک میڈیا بریفنگ میں جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈسپیئرنس {سی او آئی ای ڈی} کو مکمل طور پر ناکام اور اس کی گیارہ سالہ کارکردگی کو مایوس کن، اس کی طرزعمل کو فوج و انٹیلیجنس کے ساتھ معاونت پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ “اس کمیشن نے نو سالوں میں جبری گمشدگی کے کسی ایک مجرم کو بھی ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام رہا ہے” ۔ آئی سی جے کے معزز ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ “حکومت نے کمیشن کو تنقید سے بچنے اور یہ دعویٰ کرنے کیلئے استعمال کیا ہے کہ وہ جبری گمشدگیوں سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ ہے” جناب اِیان سیڈرمین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” تاہم حقیقت میں کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈسپیئرنس نے ایک مفاہمانہ تحقیقاتی روش کو اپنایا ہے جہاں تحقیقات نہ تو مجرموں کی جوابدہی کا باعث بنتی ہیں اور نہ ہی ان کے نتیجے میں متاثرین کو معقول و مناسب معاوضہ ملتا ہے” جناب سیڈرمین نے مذکورہ کمیشن کو مزید توسیع نہ دینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ کمیشن جاوید اقبال ہی کی سربراہی میں تادم تحری ہذا )جنوری 23 20( قائم اور موجود ہے۔

جبری گمشدگیوں کی تحقیق کیلئے ایک اور کمیشن بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر مقبوضہ بلوچستان کی کھٹپتلی حکومت نے 17 نومبر 2021 کو تشکیل دیا تھا جس کی کارکردگی جسٹس جاوید اقبال کی کمیشن سے بھی بدتر ہے اس کمیشن کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ میڈیا میں چھپے رپورٹس کے مطابق اس کا پہلا اجلاس 6 جنوری 2023 کو کوئٹہ میں کھٹ پتلی وزیر داخلہ ضیاء لانگو کے زیر صدارت منعقد ہوا اور میڈیا میں شائع رپورٹس کے مطابق کمیشن کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ “یہ کمیشن صرف ان جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کی مدد کیلئے اقدامات کرے گا جولاپتہ شخص کسی دہشتگردی کی سرگرمی میں ملوث نہ ہو”۔ یعنی مان لیا گیا ہے کہ ریاست ہی جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار ہے اوریہ بھی کہ لاپتہ شخص کی دہشتگردی یا کسی اور جرم میں ملوث و مجرم ہونے کا فیصلہ کوئی مجاز عدالت کسی قابل پذیرائی ثبوت کی بنیاد پر نہیں کرے گا بلکہ فوج اور انٹیلیجنس ہی یہ فیصلہ کرینگے کہ کون سا لاپتہ شخص دہشتگردی میں ملوث ہے اور کون نہیں ہے اور جسے فوج اور انٹیلیجنس دہشتگردی میں ملوث قرار دینگے تو کمیشن، عدلیہ اور حکومت اسے بازیاب کرنے، عدالت کے روبرو اپنا دفاع کرنے کا بنیادی قانونی اور انسانی حق دلانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کرینگے۔ ایسی اندھیر نگری و چوپٹ راج مقبوضہ بلوچستان جیسے نوآبادیات میں ہی دیکھنے میں آتا ہے ورنہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین، جمہوری و مہذب معاشروں میں جبری گمشدگی کا عمل انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے، یہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے مرتکب فوج اور انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں کو لاپتہ افراد کے بارے میں فیصلے کا اختیار دینا تو انصاف کے فراہمی کی عمل کے ساتھ ایک سنگین مزاق ہے یہ تو وہی صورتحال ہے جس میں مدعی خود گواہ اور منصف بنیں۔

محب وطن، زندہ ضمیر اور روشن دماغ بلوچوں کو جبری لاپتہ کرنے کی کاروائیوں کا دائرہ مقبوضہ بلوچستان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسلام آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم بلوچ نوجوانوں کو بھی فوج اورانٹیلیجنس جبری گمشدگی، حراسمنٹ اور نسلی امتیاز کا نشانہ بناتے رہے ہیں جس کے خلاف فروری 2022 میں انسانی حقوق کے ممتاز رکن اور معروف وکیل محترمہ زینب حاضر مزاری نے اسلام آباد ہائِی کورٹ میں بلوچ طلباء کی طرف سے ایک پٹیشن دائر کیا جس پر کورٹ نے چیئرمین سینٹ میر صادق سنجرانی کی سربراہی میں ایک کمیشن بنائی اور اسے اسلام آباد اور پنجاب کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی، حراسمنٹ اور نسلی پروفئلنگ کے شکایات کی تحقیقات اور ان کا ازالہ کرنے کی ہدایت جاری کی مگر صادق سنجرانی کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی تو فوج اور انٹیلیجنس ہی کی مرحون منت ہے بھلا وہ اپنے محسنوں کو کیسے ناراض کرسکتا ہے اس لئے صادق سنجرانی نے نہ تو کمیشن کا کوئی اجلاس بلایا اور نہ بلوچ طلباء کو درپیش مسائل کے تدارک کیلئے کوئی اقدامات کئے۔ چھ ماہ کی طویل جمود کے بعد عدالت نے 03 اکتوبر 2022 کو صآدق سنجرانی کو کمیشن کی سربراہی سے ہٹا کر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ جناب سردار اختر جان مینگل کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا اور کمیشن کو ہدایت دی کہ ایک ماہ کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ عدالت میں جمع کرے۔ عدالت نے حکام کو پارلیمنٹ ہائوس میں کمیشن کا سیکریٹریٹ قائم کرنے کا حکم بھی دے دیا۔ عدالت نے بلوچ طلباء کے وکیل محترمہ زینب حاضر مزاری کو بھی ہدایت کی کہ بلوچ طلباء کو درپیش تمام مسائل کی رپورٹ کمیشن کی سیکریٹریٹ میں داخل کرے۔ سینیٹر جناب کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، جناب افراسیاب خٹک اور سینیئر وکیل جناب علی احمد کرد پر مشتمل مذکورہ بالا کمیشن کا ایک وفد 15 نومبر 2022 کو جناب سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں کوئٹہ آیا۔ وفد کے ارکان نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا، وی بی ایم پی کے نمائندوں، جبری لاپتہ بلوچوں کے بعض لواحقین، کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ، کور کمانڈر 12 کور اور دیگر حکام سے ملاقات کرکے اس وعدے کے ساتھ واپس اسلام آباد چلاگیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کے بارے میں حقائق پر مبنی ایک مکمل اور تفصیلی رپورٹ عدالت میں داخل کرا دیں گے تاہم تا دم تحریر ہذا نہ تو مذکورہ کمیشن کی طرف سے اور نہ عدالت کی طرف سے کمیشن کا مرتب کردہ کوئی رپورٹ سامنے آیا ہے کھٹپتلی وزیر اعظم شہباز شریف بھی 9 ستمبر 2022 کو اسی مقدمہ میں بطور ملک کے چیف ایگزیکٹو اسلام آباد ہائی کورٹ کے روبرو پیش ہوئے اور اسلام آباد اور پنجاب کے دوسرے شہروں کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم بلوچ طلباء کو جبری گمشدگی، حراسمنٹ اور نسلی امتیاز سے نجات دلانے کی یقین دہانی کرائی۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذکورہ بالا پیشی سے ایک روز قبل یعنی 8 ستمبر 2022 کو جبری گمشدگی کے مسئلے پر بنی وفاقی کابینہ کی کمیٹی کے ایک وفد نے مرکزی وزیر داخلہ رانا ثناء اللّہ کی سربراہی میں کوئٹہ کا ایک روزہ دورہ کیا۔ وفد میں رانا ثناءاللّہ کے علاوہ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، شازیہ مری، بی این پی کے رہنما اور وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ اور سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ شامل تھے وزیر قانون اعظم تارڑ کی سربراہی میں کمیٹی کے چند ارکان نے وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے احتجاج پر بیٹھے جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کے ساتھ اقرارنامہ کیا کہ تین مہینے کے اندر تمام جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرکے انھیں بازیاب کیا جائیگا۔ وفاقی کابینہ کی کمیٹی کے ارکان کی وعدہ و یقین دہانی کے نتیجہ میں 50 دن سے وزیر اعلیٰ ہائوس کوئٹہ کے سامنے قائم احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اٹھا لیا لیکن تا دم تحریر ہذا نہ تو گزشتہ دو دہائیوں سے جبری لاپتہ ہزاروں بلوچ فرزند بازیاب ہوئے ہیں اور نہ مقبوضہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں بلوچوں کی جبری گمشدگی، حراسمنٹ اور نسلی پروفائلنگ کی کاروائیاں روک دی گئی ہیں۔ بلوچوں کے ساتھ ماضی میں کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کی طرح وفاقی کابینہ کی کمیٹی کے وفد کا 8 ستمبر 2022 کا معاہدہ اور یقین دہانیاں بھی دھوکہ دہی ثابت ہوئے۔ یہ دھوکہ دہی اور جھوٹے وعدے پنجابی حکمرانوں نے وزیر اعلیٰ ہائوس کوئٹہ کے سامنے 50 دنوں سے قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو ختم کروانے کیلئے دیدہ دانستہ طور پر کئے تھے کیونکہ 09 ستمبر 2022 کو تنظیم اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل جناب انتونیوگٹریس سیلابی تباہی سے شدید متاثرہ مقبوضہ بلوچستان کے چند علاقوں کا دورہ کرنے والا تھا اور اسلام آباد کے قابض و مکار حکمران نہیں چاہتے تھے کہ کھٹپتلی وزیر اعلیٰ ہائوس کے سامنے قائم جبری لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کا یہ احتجاجی کیمپ یو این او کے سیکریٹری جنرل کی توجہ جبری گمشدگیوں کے دلخراش انسانی المیہ کی جانب مبذول کرانے کا باعث بن جائے۔

ویسے بھی بلوچستان کی آزادی کا معاملہ کسی مخصوص حکومت یا حکومت کے کسی ایک ادارے کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے ساتھ بلوچ قوم کا تنازع ہے اور جس تنازع میں خود ریاست ہی فریق ہو تو ایسی صورت میں حکومت، پارلیمنٹ یا عدلیہ کے بنائے ہوئے کسی کمیشن و کمیٹی سے انصاف یا داد رسی کی امید رکھنا خام خیالی کے سوا اور کچھ نہیں کیوں جس کمیشن و کمیٹی کو ریاست ہی تخلیق کرے، جس کی کارکردگی ریاست کی معاونت، ریاست کی دی ہوئی سہولیات اورمراعات کا محتاج ہو وہ بھلا کیسے ریاست یا اس کے اختیار داروں کے خلاف انصاف فراہم کرسکتا ہے؟ ۔ ایسی صورت میں صرف تنظیم اقوام متحدہ یا کوئی دوسرا عالمی، علاقائی ادارہ یا طاقت ہی ثالث و منصف بن کر انصاف کے تقاضے پورا کرسکتا ہے۔ بلوچ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت، مقننہ، عدلیہ اور ان کی بنائی ہوئی کمیشن و کمیٹیوں سے داد رسی و انصاف کی امید ایک سراب ہے اور سراب کے پیچھے بھاگنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بلوچ عوام قابض پاکستانی فوج و انٹلیجنس کے جرائم و مظالم کے خلاف احتجاج، جلسہ، جلوس اور جمہوری جدوجہد کے دوسرے ذرائع کو محض اپنے لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت کے طور پربروئے کار لاتے ہیں نہ کہ دشمن سے انصاف کی امید میں۔ بلوچ جانتے ہیں کہ جدوجہد کے یہ سب جمہوری ہتھیار عوامی شعور کو بیدار کرنے، دشمن کے جرائم و مظالم کو بے نقاب کرنے، رائے عامہ کو اپنے مقصد کے حق میں ہموار کرنے، عالمی توجہ، ہمدردی و حمایت حاصل کرنے اور دشمن کو اخلاقی و اعصابی شکست سے دوچار کرنے میں ممد و موثر ہتھیار ہیں اسلئے بلوچ عوام آزادی کیلئے جمہوری جدوجہد و مزاحمت کے تمام ذرائع بشمول عدلیہ اور کمیشنز کے روبرو پیشی کو بھی استعمال کرتے ہیں اور قانونی چارہ جوئی اور جمہوری مزاحمت کا یہ عمل جاری رہنا چاہیئے۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومت اور عدلیہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو ٹالنے، طول دینے، بار ذمہ داری ایک ادارے سے دوسرے کے کندھوں پر منتقل کرنے، اس اہم انسانی مسئلہ پرانسانی حقوق کے عالمی اداروں کو اپنی سنجیدگی کا جھوٹا تاثر دینے اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے فوج و انٹیلیجنس کے ساتھ اعانت کیلئے بطور حربہ استعمال کرتے ہیں عدلیہ اور کمیشن کی کاروائیوں میں پیش ہوکر ہمیں ان کے اس حربے کو بے نقاب کرتے رہنا چاہیئے۔

نوٹ: مضمون نگاربی این ایم کے سابق سیکریٹری جنرل ہیں

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں