پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کی احتجاجی کیمپ جاری ہے جسے 4941 دن ہوگئے ہیں۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری صاحبہ بڑیچ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری سعیدہ اکبر کاکڑ، قیوم ایڈوکیٹ سیکرٹری اطلاعات صدیق آغا اور دیگر کیمپ نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی ۔
اس موقع پروی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہوکر کہا کہ بلوچ پشتون قومی جدجہد کو ختم کے لئے ریاست پاکستان نے ان بیس سالوں میں مختلف حربے استعمال کرتے اپنے ناجائز قبضہ کو بر قرار رکھنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ بلوچ پشتون قومی تحاریک نے جب بھی شدت اختیار کی تو پاکستان ریاست کے تمام کے تمام ادارے بلوچ پشتون پرامن جدجہد کو ختم کرنے کی کوششوں میں بھی تیزی لاتے گئے ہیں ۔اسی طرح بلوچ پشتون عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی قومی شناخت ثقافت زبان اور قومی غلامی سے بیگا کرنے کے لئے پاکستان نے دنیا کو گمراہ اور بلوچ عوام کو اپنے بنیادی قومی اور انسانی حقوق کی جدجہد کو بیگانہ کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فوجی جاریت کو جاری رکھتے ہوئے بلوچ پشتون آبادیوں پر یلغار سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ اور بلوچ پشتون فرزندوں کو جبری اغوا کر کے لاپتہ کرنے جیسی پالیسیوں کو بروے کار لاتا رہا ہے تاکہ قومی پرامن جدجہد کو دبا کر ختم کیا جاسکے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ دوسری طرف خفیہ ادارے بڑی چالاکی کے ساتھ بلوچستان میں فوجی جاریت کے لئے بڑے پیمانے پر کوشش کرنے میں مصروف ہے بلوچستان بھر میں فوجی جاریت کے ذریعے بلوچ پشتون قومی پرامن جدجہد کو ختم کرنے کی کوشش اسی سلسلے کی کھڑی ہے بلوچستان جبری قبضہ سے لیکر آج پاکستان نے بلوچستان میں کشت خون کا بازار گرم رکھا ہوا ہے پاکستانی استماری قوتیں مکمل من عن سے بلوچ پشتون نسل کشی میں مصروف عمل ہے جس میں بد زمانہ مارو پھینکو پالیسی شامل ہے جس میں اب تک ہزاروں بلوچ پشتون فرزندو کو ریياستی عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا گیا ہے۔