ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں – کامریڈالیاس

0
90

راولاکوٹ کے مقام پر جبری طور پر ایک شخص کو اغوا کرنے کی کوشش کو راولاکوٹ کے بہادر عوام نے ناکام کیا اور قابض ریاست کے تحقیقاتی ادارے کے اہلکاروں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔راولاکوٹ کے بہادر عوام سلام و مبارک باد کے مستحق ہیں۔

قابض ریاست کے تحقیقاتی و سیکورٹی اداروں کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ یہ نامعلوم جو سب کو معلوم ہیں تاریخی طور پر ماورائے عدالت قتل،جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے والے مجرم ہیں۔یہ ایسے مجرم ہیں جن کو راولاکوٹ کے اندر عوام گھسیٹ کر تھانے تک لے جا سکتی ہے۔بلوچستان میں آزادی پسند سرمچار ان کو عوامی عدالتوں میں نشانہ عبرت بنا سکتے ہیں اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی ایم ان کے خلاف آواز حق و احتجاج بلند کر سکتی ہے۔

ہم نے بہت عرصہ پہلے اس طرف توجہ مبذول کروائی تھی کہ قابض ریاست کے تاریخی طور پر دہشت گردانہ کردار کو سامنے رکھا جائے ، یہ غیر فطری اور مظلوم اقوام پر جبر کی بنیاد پر قائم ریاست اپنے مقبوضہ علاقوں کے عوام کے قتلِ عام میں کسی بین الاقوامی و انسانی اصول و ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتی۔اس ریاست کا بنگلہ دیش،سندھ،بلوچستان سے وزیرستان تک ایسا ہی دہشت گردانہ کردار رہا ہے جس کی بنیادی وجہ نا معلوم کا طاقتور اور وحشی ہونا ہے،اور یہ نا معلوم ملکی آئین و قانون کو بھی بڑے بوٹوں تلے روندے ہوئے ہیں۔

راولاکوٹ کے آج کے واقع کو لیکر ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ نام نہاد آزاد کشمیر کے دس اضلاع کے کسی بھی شہر میں چاروں اطراف داخلہ پوائنٹ پر قابض فوج کے بریگیڈ اور فوجی چھاﺅنیاں ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہر شہر کو اتنے سخت محاصرے میں کیوں لیا گیا ہے،اس لیے کہ اگر آزادی نجات اور عوامی حقوق کی منظم آواز اٹھتی ہے تو اسے بزور طاقت دبایا جا سکے،جب بھی کبھی ریاستی وحدت کے فلسفے پر عوام منظم ہوں گے تحریک بننا شروع ہوئی لوگوں نے نا جائز قبضے کو چیلنج کرنا شروع کیا تو یہ شکاری داغ لگائے بیٹھے ہیں کہ بلوچستان جیسے حالات پیدا کیے جائیں گے۔ جوں جوں تحریک منظم ہو گی ان کے جبر میں شدت پیدا ہو گی،یہ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ شروع کر دیں گے،آج ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم فوج کی طرف سے تمام شہروں کے شدید محاصرے کے خاتمے کی مانگ کریں،فوجی چھاﺅنیوں اور بریگیڈز کے فوری خاتمے کی مانگ کریں۔حفاظت کے نام پر ہمیں بری طرح محاصرے میں جکڑ لیا گیا ہے،یہ جو ہمیں لگ رہا ہے کہ یہاں امن ہے یہ امن نہیں ہے بلکہ یہاں غلامی کو آزادی ماننے کی کے نتیجے میں پرامن محاصرہ ہے جو غلامی کو غلامی کہنے اور آزادی کی مانگ کرنے پر پر تشدد اور دہشت گردانہ روپ دھار لے گا۔چونکہ ان نا معلوم محافظوں کی تاریخ ظلم،جبر،تشدد اور انسانی قتل و غارت سے بھری پڑی ہے،انہی نا معلوم وحشیوں نے عارف شاہد کی لاش اسلام آباد میں ہمیں دی۔سرفراز کو کراچی میں دن دھاڑے گولیوں کا نشانہ بنایا اور درجن بھر باصلاحیت اور ہونہار نوجوان طالب علموں کی لاشیں ہم ان کے شہروں سے وصول کر چکے ہیں۔

راولاکوٹ کے واقعہ کو لیکر کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان نا معلوم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنا مجرم کی پشت پناہی ہے جو کہ سرا سر غلط ہے اگر ہمارے کسی شہری نے کوئی جرم کیا ہے تو متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے، مجرم کو مقامی پولیس گرفتار کر سکتی ہے اور عدالت اسے سزا دے سکتی ہے،بڑے بوٹوں اور خاکی وردی والوں کو یہ اختیار نہیں کہ وہ جب جسے جہاں سے چائیں اٹھا کر غائب کر لیں،اس سلسلے کو ہم بلوچستان میں گزشتہ تین دھائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مسنگ پرسنز کے لواحقین بے یارومددگار مسلسل احتجاج پر ہیں لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہے،کیونکہ یہ درندہ صفت فوج کسی قاعدہ،قانون اور آئین کی پابند نہیں ہے،ایسی بے لگام طاقت کو ایک ہی عدالت ایک ہی طاقت پابند بنا سکتی ہے اور وہ ہے عوام کی طاقت۔ عوام چاہے بلوچ ہوں،پختون ہوں ،سندھی ہوں یا پھر راولاکوٹی ہوں،منظم عوام ہی ان کا محاسبہ کر سکتی ہے اور کرے گی۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں