ماہل بلوچ کی فورسز ہاتھوں گمشدگی کیخلاف سب آواز اْٹھائیں، بلوچ رہنماؤں و سماجی کارکنوں کی اپیل

0
21

گزشتہ روز پاکستانی فورسز نے بلوچ خاتون ماہل بلوچ کو انکے گھر سے تشدد کا نشانہ بنا کر اغوا کرنے کے بعد انکی گرفتاری ظاہر کی اور انکے خلاف خودکش بمبار کا جھوٹا ایف آئی آر درج کیا جس پر بلوچ حلقوں میں سخت ردے عمل سامنے آیا،عوام کیجانب سے احتجاج کی کالوں کے ساتھ۔
بلوچ نیشنل مووئمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائیٹ ٹوئٹر پر بلوچ خاتون ماہل بلوچ کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی پر اپنے ایک ٹوئٹ میں سب سے گزارش کی ہے کہ اس بربریت کے خلاف آواز اٹھائیں۔

بی این ایم کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ملک ناز، نور جان، رشیدہ اور دیگر لوگوں کے بعد پاکستانی فوج نے ایک اور بلوچ خاتون کو نشانہ بنایا۔ گزشتہ رات ماہل بلوچ کو کوئٹہ سے اغوا کر کے لاپتہ کر دیا گیا ہے۔ وہ بی این ایم کے رہنما واجہ محمد حسین مرحوم کی بہو ہیں۔ سب سے گزارش ہے کہ اس بربریت کے خلاف ا?واز اٹھائیں۔

واضح رہے کہ ماہل بلوچ متحرک سماجی کارکن ہیں جو بلوچستان میں اپنے قوم کی جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج رہی ہیں۔

مہرنگ بلوچ متحرک سماجی کارکن نے کہا کہ کیا آپ ایک قوم کی عورتوں پر تشدد اور جبری گمشدہ کر کے انہیں اپنے قومی جدوجہد سے دستبردار کر سکتے ہے؟ کیا آپ مزاحمت کے تاریخ سے ناواقف ہے؟یہ انسانی تاریخ کیسب سے بڑی حقیقت ہے کہ جبر کے زریعے قوموں کو محکوم رکھنے والی قوتیں نیست و نابود ہوگئی۔

بلوچ آزادی پسند رہنما اور دانشور رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے ماہل بلوچ کی پاکستانی فورسز ہاتھوں گرفتاری پر سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹیوٹر پر اپنے ایک ٹیوٹ میں کہا ہے کہ

محترمہ ماہل بلوچ کے خلاف فوجداری مقدمہ بلاشبہ جھوٹا ہے۔
سی ٹی ڈی اور دیگر ادارے پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچ عوام کے خلاف نسل کشی کی کارروائیوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف محترمہ ماہل بلوچ کے خاندان بلکہ پوری بلوچ قوم کے وقار پر حملہ ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ سی۔ٹی۔ڈی نے کوئٹہ میں کارروائی کرتے ہوئے ماہل بلوچ نامی ایک خاتون کو خود کش بمبار ٹھہرا کر کل رات اس کو اس کے بچوں سمیت جبری طور پر گمشدہ کیا ہے۔ بلوچ قوم اگر 2005 میں زرینہ مری کے جبری گمشدگی پر خاموش نہ ہوتی تو کل ایک رشیدہ اور آج ماہل جیسی ہماری مائیں بہنیں، بلوچ قوم کے ننگ و ناموس جبری طور پر لاپتہ نہ ہوتے۔ یہ وہی خاموشی ہے کہ آج 18 سال گزرنے کے بعد بھی زرینہ مری لاپتہ ہے۔ یہ وہی خاموشی ہے کہ جس کے سبب آئے دن ہماری ماؤں بہنوں کو جبری طور پر گمشدہ کیا جا رہا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں