بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کیخلاف بی این ایم کا ساؤتھ کوریا میں احتجاج

0
40

بی این ایم جنوبی کوریا کی طرف سے  بوسان شہر میں بف اسکوائر کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ احتجاجی مظاہرہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور بلوچ خواتین پر تشدد کے خلاف کیا گیا تھا۔مظاہرے کا مقصد ماھل بلوچ کے اغواء کے خلاف اپنا احتجاج رکارڈ کرانا تھا۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے  تھے جن میں ماھل بلوچ کے اغواء اور بلوچوں کی جبری گمشدگی سے متعلق نعرے درج تھے۔مظاہرین نے  مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان  کے جاری مظالم پر خطاب کیا۔

مظاہرے میں شریک 13 سالہ بختاور نے کورین زبان میں تقریر کی اور بلوچستان  میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی برادری اور مہذب دنیا  کی خاموشی پر سوال اٹھایا۔  

بختاور بلوچ نے کہا ’’ میں مڈل اسکول کی طالب علم ہوں اور ہم آج یہاں بلوچستان میں جاری پاکستانی فوج کے ہاتھوں  بلوچ نسل کشی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم یہاں ہیں تاکہ آپ کو بلوچ نسل کشی کے بارے میں آگاہ کریں۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج گذشتہ 75 سالوں سے بلوچ سرزمین ’ بلوچستان ‘ پر قابض ہے۔بلوچ قوم کو پاکستانی فوج کے ہاتھوں بدترین نسل کشی کا سامنا ہے۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بلوچستان میں 50 ہزار سے زائد شہری ، دانشور ، طالب علم، انجینئرز ، ڈاکٹرز، سیاسی کارکنان، رہنماء حتی کہ خواتین کو بھی پاکستان کی شیطانی فوج اغواء کرکے جبری لاپتہ کر رہی ہے۔اور حال ہی ایک ہفتہ پہلے بلوچ خاتون ماھل بلوچ جو کہ ایک شہید کی بیواہ اور دو چھوٹی لڑکیوں کی والدہ ہیں کو پاکستانی فورسز نے رات کے اندھیرے میں ان کے گھر سے اغواء کیا۔پاکستانی فوج نے جھوٹے الزامات لگاکر ان پر بہیمانہ تشدد کیا۔‘‘

’’ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں تفریح کرنے کے لیے جمع نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہمارے درد ہمیں یہاں کھینچ لائے ہیں تاکہ ہم یہ پوچھ سکیں کہ وہ تمام مذہب لوگ جو کہ ہمیشہ انسانی حقوق پر بات کرتے ہیں لیکن جب بلوچ قوم کے انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں تو وہ کیوں خاموش ہیں؟کیا بلوچوں کے انسانی حقوق نہیں ہیں؟ کیا بلوچوں کو انسان تسلیم نہیں کیا جاتا ؟ہمارے لوگ کیوں قتل اور غائب کیے جا رہے ہیں؟ کیوں جب ہمارے لوگ قتل اور اغواء ہوتے ہیں ، کوئی اس پر سوال نہیں اٹھاتا۔اس خاموشی کی وجہ سے  بے گناہ مرد اور خواتین اغواء اور لاپتہ کیے جاتے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ آج میری سالگرہ ہے عام طور میری عمر کے بچے اپنی سالگرہ خوشی خوشی مناتے ہیں لیکن میں اپنے لوگوں کے درد اور غم لے کر کیسے اپنی سالگرہ منا سکتی ہوں؟ بلوچستان میں میری عمر کے بچے اپنے لاپتہ والد اور بھائیوں کے لیے دن رات احتجاج کر رہے ہیں اور انھیں انسانی حقوق کے ادارے نظر انداز کر رہے ہیں ؛ کسی کی آنکھیں انھیں نہیں دیکھتیں اور کوئی منھ ان کے لیے نہیں کھلتا۔میں کہنا چاہتی ہوں کہ ہم آپ جیسے انسان ہیں برائے مہربانی ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں جس کا انسان حقدار ہیں۔‘‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ میری آپ سے مہدبانہ درخواست ہے کہ بلوچ قوم پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔میں انسانی حقوق کے تمام اداروں سے گزارش کرتی ہوں کہ پاکستان کے بلوچستان میں  انسانیت کے خلاف جرائم پر اسے بازپرس کیا جائے اور بلوچوں کے اغواء اور قتل کو روکا جائے۔

مظاہرے کے دوران  بلوچ قوم کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے بارے میں بڑی تعداد میں پمفلٹ تقسیم کیے گئے۔مظاہرین نے پاکستانی فورسز کے  ہاتھوں  بلوچ خواتین  کے اغواء اور بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کے خلاف ریلی نکالی جس میں بلوچ قوم پر مظالم کے خلاف نعرے لگائے گئے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں