مقبوضہ بلوچستان:وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ بدستور جاری

0
13

مقبوضہ بلوچستان کے راجدانی کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ جاری مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کی آمد کا سلسلہ۔

راجدانی کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے لواحقین کااحتجاجی کیمپ جاری ہے جسے 4986 دن ہوگئے ہیں۔بی ایس او کے سابقہ زونل صدر شکور بلوچ، سلطان بلوچ، قاضی احمد بلوچ اور دیگرفکری لوگوں نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ طاقت پر انحصار ریاستی پالیسی کا اس لئے نمایاں خاصہ رہا ہے کہ بلوچ قوم نو آبادیاتی دور سیاسی ثقافتی یلغار سے مغلوب ہونے کی بجائے اپنی متوازی سیاست اور ثقافت کے ساتھ زندہ رہی۔ لیکن یہ قومی سیاست و ثقافت کے مراکز ریاستی ادارے نہیں بلکہ بلوچ قوم کے دل و دماغ ہیں جن کا خاتمہ بلوچ قوم کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے ریاستی طاقت کے استعمال میں بلوچ نسل کشی کا رنگ غالب نظر آیا۔انہوں کہا کہ یہ سلسلہ ابھی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ اس کا درست حل بین الاقوامی اور تاریخی حقائق کی روشنی میں کسی عالمی فورم کے ذریعے سے ہی ممکن ہے جس کے لئے اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز موجود ہیں لیکن بالا دست قوتوں کی یہ یقین ہے کہ ایسی صورت میں وہ اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکیں گی اور بلوچ قوم کا جدا گانہ تشخص بحال کرنا پڑیگا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ابھی یہ کل ہی کی بات ہے جس کی گونج تاحال معدوم نہیں ہوئی ہے جب صوبائی حکومت طمطراق سے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ ایسے گھوڑے کی سواری نہیں کریں گے جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔ اب ان کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت تو ملی لیکن اختیارات نہیں ملے یعنی گھوڑے کی سواری ہے لیکن لگام گھوڑے کے مالکان کے پاس ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض کے سانحہ کو دبانے اور اس کے ذمے داروں کی نشان دہی کے حوالے سے ابہام پھیلانے کی پوری کوشش کی ہے۔

جس کے سب سے زیادہ منفی اثرات سانحہ بلوچستان کے بلوچوں کے جبری اغوا اور دوران ریاستی حراست ان کے سفاکانہ قتل اور بلوچ حقوق کے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کی کوششوں پر مرتب ہوئے۔ جس کا بالادست قوتیں اور ان کے حواری بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ بلوچ قوم اپنے قومی تشخص کی بحالی کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے جزبہ حریت کی نت نئی مثالیں قائم کر رہی ہیں اور بالا دست قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہیں تو نمائندہ بلوچ سیاسی قوتوں کے اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے ایک متحدہ پلیٹ فارم کا احتمال ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں