پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب سے امن امان کی بگڑتی صورتحال اور پشتون تحفظ مومنٹ رہنماؤں پر جاری ریاستی کریک ڈاؤن کے خلاف مقبوضہ بلوچستان کے شہر لورالائی میں جلسہ منعقد کیا گیا۔
لورالائی جلسے میں پشتون تحفظ موومنٹ بلوچستان کے رہنماؤں، کارکنان و پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنماء منظور پشتین اور علی وزیر بھی شریک ہوئے۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنمائمنظور پشتین کا کہنا تھا اگر پشتون آواز اٹھائیں تو مارے جائیں گے اور اگر آواز نہ اٹھائیں تب بھی ہمیں مارا جائے گا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ایک مخصوص ریڈ لائن کھینچی ہوئی ہے آپ اسکے لائن کو کراس کروگے تو آپ کو جبری گمشدگیوں اور اقدام قتل کا سامنا کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ میں 23 سال کا تھا جب ہم نے پی ٹی ایم کی بنیاد رکھی تھی اب میں 28 سال کا ہوچکا ہوں۔ میرا شناختی کارڈ بلاک ہے میرا سِم کارڈ بلاک ہے اور میرے بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان میں جانے پر پاپندی ہے۔ جنہوں نے کروڑوں لوگوں کو جبر کا نشانہ بنایا ان کو یہ جاننا چاہیے کہ بہت سے لوگ اس سرزمین پر ہمیں فتح کرنے کیلئے آئے ہوئے تھے لیکن وہ ناکام ہوئے آپ بھی ان لوگوں کی طرح ناکام ہونگے۔
لورالائی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پشتون رہنماء کا کہنا تھا مذاکرات کے نام پر مختلف علاقوں میں مسلح تنظیمیں داخل کئے گئے دھماکے اور پھر آپریشنوں کے نام پر پشتونوں کا خون بہایا جا رہا ہے، ہم نے اس کے خلاف جلسے کئے تو جواب میں پروپیگنڈے شروع ہوئے اور ہمارے کارکنان و ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا ایک بار پھر بدامنی پیدا کی جارہی ہے دھماکے ہورہے ہیں اب سی پیک تک بات پہنچ جائیگی پھر چائنا سے پیسے لئے جائینگے کہ دہشتگردی سے سی پیک کو نقصان ہے اور آپریشن کے نام پر پیسے لیے جائینگے اور امریکہ سے ڈالر لیے جائینگے کہ ہم نے مزید بنانے ہیں تاکہ سی پیک ناکام ہوجائے پس ایک کو مارینگے اور دو کو بنائینگے تاکہ کاروبار جاری ہو اور اس ظلم میں سب سے بڑا متاثر ہمیشہ پشتون رہا ہے لیکن اب ہم اس مظالم پر خاموش نہیں رہنے والے ہیں۔
پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنماء علی وزیر نے جلسے سے خطاب میں کہا دنیا نے اپنے مفادات کی خاطر 40 سال تک پشتونوں کی سرزمین کو میدان جنگ بنا رکھا ہے جہاد اور جہادیوں کے نام پر مختلف لوگوں کو پیدا کیا گیا جنہوں نے سب سے پہلے پشتونوں کے قبائلی مشیران اور سیاسی رہنماوں کو قتل کیا غیروں کی طرف سے پشتونوں پر مسلط کردہ جنگ میں ہزاروں پشتون مارے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں بے گھر اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں اتنی بڑی قربانیوں کے باوجود آج بھی پشتونوں کے اپنے علاقے میں نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات ہیں ان حالات سے تنگ آکر جب پشتون پاکستان کے دوسرے صوبوں کا رْخ کر تے ہیں تو وہاں بھی ان پر مختلف بہانے بنا کر اْن کو تنگ کیا جاتا ہے اور تھانوں میں بند کیا جاتا ہے۔”
علی وزیر کا کہنا تھا جب ہم نے ان مظالم کے خلاف آواز بلند کی تو مجھے جنرل باجوہ نے جیل میں بند کرکے معافی مانگنے کے لئے زور دیا البتہ ہم نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف ہمیشہ ڈٹ کر لڑنے کا عہد کیا ہے ہم جیلوں اور قید خانوں نے ڈرنے والے نہیں ہم نے لاشیں اور جیلیں دیکھ لی اب پنجاب اسٹیبلشمنٹ کی باری ہے کہ وہ عوامی مزاحمت کا سامنا کرے۔
جلسہ عام سے پشتون تحفظ موومنٹ بلوچستان کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پشتون علاقوں میں فوجی آپریشنوں کے نام پر شہریوں کو تنگ کیا جارہا ہے ریاست سمجھ چکی ہے کہ اب عام پشتون ریاستی دہشت گردی کے فیکٹری کا ایندھن نہیں بنیں گے اسلئے انکے خلاف اب ریاستی کریک ڈآؤن شروع کی گئی کارکنان کو جلسہ نا کرنے کے دھمکایا گیا البتہ اب پشتون اپنے تحفظ اور حقوق کے جہدو جہد سے دستبردار نہیں ہونگے۔