مقبوضہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4998 ویں روز جاری رہا۔
آج کوئٹہ سے پی ٹی ایم کے کارکنان قیوم کاکڑ، فتح محمد کاکڑ اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی –
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی ریاست پاکستان کے اسلامی فورسز کے بلوچ قوم پہ ظلم اور جبر بند نہیں ہوئے ہیں، بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے کئی کیسز ہماری تنظیم کو رپورٹ ہوئے ہیں۔ 31 اگست 2018 کو نوشکی سے جبری لاپتہ رشید بلوچ کی ماں بیٹے کی جدائی کا درد نہ سہتے ہوئے کل وفات پا گئیں، ہم انکے فیملی سے تعزیت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم واضح کرتے چلیں کہ اس ریاست کو ماں نہیں کہا جاسکتا جس کے ظلم سے بلوچ لاپتہ افراد کی مائیں جانیں جا رہی ہیں، یہ تمام اجتماعی جبر کے زمرے میں آتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں بلوچ جبری اغوا و لاپتہ سیاسی کارکنوں کی غیر قانونی اغوا برائے تاوان کی اس غیر انسانی بحران پر پریس کلبوں کے سامنے بلوچ ماؤں، بہنوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے سہی مسلح سرکار کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ اپنا موقف کی وضاحت کریں مگر اب میرا خیال ہے کہ گلہ اور شکووں کا موسم بیت چکا ہے راستوں کاتعین ہوچکاہے جسکو زخم اٹھانا تا وہ اٹھا چکے ہیں اور جن گھروں کو اگ لگنی تھی وہ جھل کر بسم ہو چکے ہیں۔ جن ماؤں، بہنوں کو رونا تھا وہ رو رو کر اندھی ہوچکی ہیں جن بچوں کو یتیم ہونا تا وہ یتیم ہو چکے ہیں جن بہنوں کو بیوہ ہونا تا وہ بیوگی کی چادر اْوڑ چکے ہیں۔ اور مزید یہ سلسلہ جاری رہے گا ابھی اور جانے کتنے نوجوانوں کو فدا ہونا ہے۔ یہ بازی ہی ایسی بازی ہے مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اْن سب کے ساتھ ایک تاریخ بھی رقم ہو رہی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ہم اس مسلے کو کیسے واضح کریں کہ قوم پرست کون ہے؟ جو کہ زندگی کی تمام آسائشوں سے محروم ہو کر سر کی بازی لگا رہے یا وہ کہ جو آرم دہ کرسیوں پر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ جو تاریک زندانوں میں زندہ درگور کئے گئے ہیں۔ جن کی مائیں بہنیں بھوکے پیاسے پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج ہیں یا وہ جن کے بچے اسلام اباد کی مہنگا ترین تعلیمی اداروں میں حوانیت کے گْر سیکھ رہے ہیں۔