قدرت کا انتقام یا مکافات عمل

0
86

80 کی دہائی کے اختتام اور 90 کے آغاز سے ہمارے ہاں ( آزادکشمیر میں) اخبارات،ٹی وی ،مساجد، سکولوں ،کالجوں ، شہروں ،بازاروں اور دیہاتوں میں ایک طوفان برپا تھا ۔ نعرے،ترانے ، جلسے جلوس، مجاہدین ،جیلوں سے مفرور، اشتہاری ، قاتل ، ڈکیت ، کلاشنکوفیں، کیمپ، ٹریننگ ، ویگو ،ڈبل ڈور گاڑیاں، ایجنسیاں ۔ بس کشمیر آزاد ہوا کہ ہوا۔ انڈین آرمی آج گئی کہ کل گئی۔ اسی جزباتی ماحول میں اُس پار سے ہزاروں کی تعداد میں جزباتی نوجوانوں کو اس طرف سرسبز اسلامی فلاحی ریاست ، جنت نظیر، اسلام کے قلعے اور مسلمانوں کی سپر پاور کا سراب اور جھوٹا سپنا دکھا کر یہاں لایا گیا جبکہ اس طرف وہاں ظلم و جبر کی داستانیں بیان کر کے ہزاروں نوجوانوں کو ایک کلاشنکوف ، چند گرینیڈ اور گولیوں کا ایک بیگ دیکر ، کمانڈو وردی اور بوٹوں کے ایک جوڑے کے ساتھ دنیا کی طاقتور ، اعلیٰ ٹریننگ یافتہ ، مربوط اور منظم فوج کے سامنے پھینکا گیا۔ یوں انسانی جانوں ، انسانی عزتوں اور انسانی عظمتوں کی قتل وغارت گری اور تذلیل پر مبنی ایک بدترین و بدنام زمانہ کاروبار کا آغاز کیا گیا جسکو مقدس ” جہاد” کا نام دیا گیا۔ اس مقدس جہاد کے نام پر کشمیر میں جو تباہی ہوئی جو انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، املاک تباہ ہوئیں ، لوگ در بدر ہوئے ، بچے یتیم ہوئے ، اس طرف سے جو ہزاروں نوجوان وہاں بھیج کر مروائے گئے ، سیزفائر لائن پر جو ان گنت لوگ دو طرفہ گولہ باری اور فائرنگ کی بھینٹ چڑھے ، ہجرتیں کرکے پاکستان کے سحراوں اور بیانوں میں جاکر آباد ہوئے، عزتوں اور عظمتوں کی نیلامی ہوئی ، بچے سکولوں سے بھاگ کے ٹریننگ کیمپوں کا ایندھن بنے ، بے راہ روی کا شکار ہوِئے ، والدین اور رشتے داروں کیلیے اذیت کا باعث بنے۔اس سارے المیے اور المناک کہانی کو ایک طرف رکھیں آپ تصور نہیں کرسکتے کہ 88 سے لیکر حالیہ چند سال قبل تک تیس بتیس سالوں میں کس قدر بے رحمی کے ساتھ کھربوں روپے پانی کی طرح بہائے گئے۔جرنلوں، کرنلوں ، سیاسی جماعتوں، سیاسی چمچوں اور ملاوں کی عیش وعشرت اسی جہاد کے بل بوتے پر ممکن ہوئی۔ جبکہ اس پار “جہاد کونسل” اور ” حریت کانفرنس” کے لوگوں کو اس بہتی گنگا میں خوب نہلایا گیا ۔ اسکی زندہ مثالیں وہاں انکی جائدادیں اور اس آر ان لوگوں کی مظفر آباد، اسلام آباد ، بحریہ ڈی ایچ اے اندر کوٹھیاں اور بڑے بڑے بزنسز جو صرف خالی ہاتھ وہاں سے آئے تھے یا لائے گئے تھے۔ (جبکہ دوسری طرف کیمپوں اور مہاجر کالونیوں میں زلت و رسوائی کی ایسی مثالیں کہ جنکو بیان کرنا ممکن نہیں ) ۔
اس ساری ماتم کہانی کا مقصد یہ ہے کہ اسکا انجام کیا ہوا؟ آج وہ سب کچھ شروع کرنے اور کروانے والے کہاں کھڑے ہیں ؟ جن سے کروایا گیا اور جنکے خلاف کیا گیا وہ کہاں کھڑے ہیں ؟ وہ کھربوں روپے کس چیز پر انویسٹ کیے گے ؟ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟ اور کیا صرف وہی سرمایہ بچا کر بجائے انتشار اور منفی سرگرمیوں کے اگر انسانی ترقی کے کاموں پر لگایا جاتا تو آج حالات کس قدر قابل تعریف ہوتے۔
صرف پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان ، جنگ اور نوائے وقت ہی ہوتے تو شاید لوگوں کی آنکھوں میں مزید چند سال اور دھول جھونکنا ممکن ہوتا لیکن خانہ خراب ہو سوشل میڈیا کے مستریوں کا کہ جنہوں نے ہر جھوٹ پر موت بن کر حملہ کیا۔ آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کشمیر آزاد کروانے والے دنیا کے سامنے عبرت کا نشان بن چکے ہیں ۔آٹا ناپید ہے، بھوک کی وجہ سے ہر طرف چیخ و پکار ہے، لوگ اپنے بچے فروخت کر رہے ہیں ، والدین خود کشیاں کر کررہے ہیں ، وہ جو دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لگانے نکلے تھے بقول مودی وہ ” کٹورا “. لیکر دنیا بھر میں گھوم رہے ہیں ۔70 سالوں تک ان لوگوں نے صرف جہالت اور تشدد کی آبیاری کی اور دوسروں کو انگلی دی۔جبکہ ان ملکوں نے مستقبل کی منصوبہ بندی کی۔آج بنگلہ دیش کی معیشت کو ہی دیکھ لیں اور اس انڈیا کی معیشت کا جائزہ لیں جس نے برطانیہ جیسی معاشی پاور کو ایک درجہ پیچھے کر کے چھٹے نمبر پر کھڑا دیا ۔ جس کشمیر کو یہ ” آزاد ” کروانے چلے تھے وہاں تین انٹرنیشنل ائیرپورٹس ہیں اور سرینگر سے برائے راست دنیا کا معاشی تعلق قائم ہوچکا ہے، سرینگر کی پیداوار دوبئی اور یورپ کی منڈیوں میں برائے راست پہنچ رہی ہیں ۔ وہاں کے تاجر کو عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے۔ دنیا کی جدید ترین ریلوے لائن اور بلند ترین ریلوے بریج جموں کشمیر کے اندر بن کر مکمل ہوچکا ہے۔ٹنل کے ذریعے جموں۔کشمیر اور لداخ کے درمیان فاصلے کم کیے جارہے ہیں ۔کئی ٹریلین کا بجٹ ان خطوں پر لگا اسکو دنیا کیلیے ماڈل خطہ بنایا جا رہا ہے۔ ہائی ویز اور موٹرویز بن رہی ہیں ، سڑکوں کے جال بچھائے جارہے ہیں ۔کھانے پینے کی قیمتوں پر سبسڈی دی جاتی۔
ہے، آٹا اور چاول تین چار روپے کلو کے حساب سے ملتے ہیں ، بجلی کا بل ستر سے اسی روپے آتا ہے، فروٹ کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو پچاس سے سو روپے کی قیمت کے درمیان نہ ہو، ایسی کوئی سبزی ہی نہیں جسکی قیمت تیس روپے سے زیادہ ہو۔ اب بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جس کشمیری کو ہم مظلوم بنا کر پیش. کرتے تھے اور اسکو یہاں سے ہوکر آزاد کروانے کیلیے نعرے بازی کرتے تھے اس کشمیر کے بٹ مالو بازار میں کھڑے ہوکر وہاں کی ایک لڑکی ہمارے لیے پیاز ، ٹماٹر اور فروٹ کی بات کر رہی ہے ۔اب یہاں سے اس پار انکو ” آزاد” کروانے کے بجائے ان سے آٹا ، گھی اور پیاز خریدنے کیلیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
ذرہ سوچیے ایسا کیوں ہوا؟؟ اسلیے کہ انہوں نے تاریخ سے سبق سیکھا ، انہوں نے دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی ، انہوں جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق پالیسیاں بنائیں،سائنس ٹیکنالوجی اور جدیدعلوم پر توجہ دی۔ ادارے بنائے ، جمہوریت کو مضبوط کیا، فوج کو اپنی حدود میں رکھا، جنگ بازوں اور فرقہ پرست گروہوں کی آبیاری نہیں ، کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخت کے بجائے معاشی ترقی کی دوڑ پر توجہ مرکوز رکھی ۔ ایک ہی دن برطانوی قبضے سے آزادی حاصل کرنے والے دونوں ممالک کے حالات سب کے سامنے ہیں ۔ ایک ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے اور دوسرا زلت کی اتھاہ گہرایوں میں گرتا چلا جا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اگر اس ملک کے کرتا دھرتا مائی باپ ہوش کے ناخن لیکر صدیوں پیچھے ماضی کی دنیا سے باہر نکل کر حال کے مطابق زندہ رہنے اور مستقبل کو سمجھنے کی کوشش شروع کر دیں تو شاید آدھ ، اربع صدی کے بعدانکے حالات کچھ بہتر ہوجائیں اور یہ دنیا کے نقشے سے مٹنے اور عبرت کا نشان بننے سے بچ جائیں ۔یا کم ازکم پڑوسی کی نقل ہی کرنے کی کوشش شروع کردیں تو بھی کوئی صورت بن سکتی ہے۔ورنہ قدرت کے قوانین تو تبدیل نہیں ہوسکتے۔ بے عملی ، بے ایمانی اور غیر فطری کام کرکے جتنی مرضی دعائیں مانگتے رہیں، حج ، عمرے اور طواف کرتے رہیں،_مکے اور مدینے میں جاکر منتیں مانتے رہیں ۔آپ فطرت کے قوانین کو تبدیل نہیں کرسکتے اور نہ ہی فطرت کے انتقام سے بچ سکتے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں