قاری حزیفہ نے خانیوال کے ایک مدرسے جامعۃ الحبیب میں ایک 10سال کے طالب علم کے ساتھ ساتھی کے ہمراہ زیادتی کی، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ مذہبی طبقہ اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرتا کہ طالب علم ایک مذہبی گھرانے سے ہے تاہم مذہبی طبقے نے زیادتی کے اس واقعے پر تبصرے کو اسلام پر حملہ اور مدارس کے خلاف ایک سازش قرار دے دیا ہے۔
خاص اس واقعے کے تناظر میں مذہبی طبقے کا بیانیہ قابلِ غور ہے، جہاں جہاں اس واقعے کا ذکر ہوا، تذکرہ کرنے والے کو مذہبی طبقے کے افراد کی جانب سے چھپا ہوا ملحد یا قادیانی کہا گیا، مذمت یا افسوس کے بجائے مذہبی افراد زیادتی کے اس افسوس ناک واقعے کے جواب میں اسکولوں اور کالجوں میں معاشقوں کے واقعات کو جواز کے طور پر پیش کرتے رہے گویا کسی اسکول یا کالج میں کوئی معاشقہ اس ریپ کے حق میں دلیل قرار دی گئی۔
مذہبی طبقہ خانیوال کے ریپ کے واقعے کو بیان کرنے والوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ پہلے وہ اسکول اور کالجوں میں ہونے والے معاشقوں کا تذکرہ کریں بصورت دیگر وہ منافق قرار پائیں گے، مذہبی طبقہ اس عمل سے دراصل خانیوال میں ہونے والے واقعے کے تذکروں کو دبانے کی کوشش کررہا ہے۔
جس بچے کے ساتھ ریپ کا واقعہ ہوا، سوشل میڈیا صارفین نے اس کی چہرے کی تصاویر تک شیئر کیں جو غیراخلاقی اور قانوناً جرم ہے، اسی طرح ملزم قاری حزیفہ کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں جو قانوناً اور اخلاقاً درست نہیں کہ وہ عدالت کی نگاہ میں ابھی تک ملزم ہی ہے، وہ مجرم نہیں ہے، اس کا رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد فرار ہونا اس کے مجرم ہونے کی دلیل ہے تاہم عدالتی فیصلہ آنے تک وہ ملزم ہی ہے۔
مدارس میں مولویوں کی جانب سے ریپ کے واقعات اس لئے زیادہ تشویش ناک ہیں کہ ملزمان کو مذہبی اشرافیہ فرار کروادیتی ہے، ان کی مکمل پشت پناہی کی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد یہ ملزم کسی اور جگہ مذہبی تعلیمات دے رہے ہوتے ہیں، مذہبی طبقے کا ریپ کے ملزمان سے متعلق بیانیہ اور یہ عمل انتہائی خطرناک ہے اور اس بات کو کہنے کا جواز فراہم کرتا ہے کہ خدارا اپنے بچوں کو رہائشی مدارس میں اس وقت تک ہرگز نہ بھیجیں جب تک مذہبی طبقہ ایسے ملزمان کی پشت پناہی سے باز نہیں آجاتا۔
اب ایسے اسکول بھی عام ہیں جہاں بچوں کے لئے قرآن کے ناظرہ اور حفظ کی سہولت ہے، اگر مدارس کے بجائے بچوں کو ایسے اسکولوں میں اس وقت تک پڑھایا جائے جب تک مذہبی اشرافیہ ریپ کے ملزمان کے حق میں اپنے بیانئے سے تائب نہیں ہوتی تو یہ شاید مذہب دشمنی نہیں کہلائی جائے گی بلکہ ممکنہ طور پر یہ مذہب پر درست عمل ہوگا۔
اسی طرح عموماً مولویوں اور قاریوں کو ایسے واقعات سے بچنے کے لئے گھروں میں بلا کر بچوں کو قرآن کی تعلیم دلوائی جاتی ہے اور یہ مولوی گھر میں بھی باز نہیں آتے اور بچوں سے جنسی تعلق قائم کرنے کا کوئی راستہ نکال لیتے ہیں، ایسی صورت میں بہتر ہے کہ مولویوں اور قاریوں کی گھروں میں قرآن کی تعلیم کے نام پر داخلہ بند کیا جائے تاکہ ہمارے بچے جنسی درندوں سے محفوظ رہیں۔
یقیناً سارے مولوی اور سارے قاری ایک جیسے نہیں ہوتے مگر ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ کب کس مولوی اور قاری کے شہوانی جذبات بھڑک جائیں کیونکہ یہ وہ طبقہ ہے جن میں سے اکثر مدرسوں میں ایسے حالات سے خود گزر کر آئے ہوتے ہیں اور خود جنسی گھٹن کا شکار ہوتے ہیں، نظر کی حفاظت کے مسئلے کی وجہ سے یہ عورت کو دیکھتے تک نہیں جس کا نتیجہ شاید جنسی گھٹن کی صورت میں نکلتا ہے اور اگر ایسے میں اگر اس گھٹن کو جائز راستہ نہ ملے تو یہ عورت کو محض سیکس کی کوئی چیز سمجھنے لگتے ہیں اور انہیں ہر بچہ لذت حاصل کرنے کا ایک کھلونا نظر آتا ہے اور پھر یہ لوگ خود کو روک نہیں پاتے۔