بلوچ تحریک کی بلوچستان کے وسائل پر حصہ داری کی مانگ

0
82

ہمارا جو نشینلزم اور جدوجہد ہے، وہ وسائل کی بنیاد  پر نہیں ہے، کیونکہ اگر ہم اس تحریک اور جدوجہد کو1948 سے لے لیں تو اس وقت کوئی بھی وسائل، نہ تیل، نہ گیس، نہ آج کے ریکوڈک، نہ سیندک، نہ کاپر مائنز، نہ گولڈ مائنز دریافت ہوئے تھے۔ بلوچ تحریک یا قوم دوستی  کی تحریک پاکستان کے بننے سے بھی پہلے ہے۔ آج کی جدوجہد کا وسائل سے کوئی براہ راست وابستگی نہیں ہے۔ ہم 1930 کی دہائی میں دیکھتے ہیں جو جدید قوم دوستی ہے، یوسف عزیز مگسی کے زمانے سے لے کر آج تک جس شکل میں موجود ہے، اس میں وسائل کی بات کبھی بھی نہیں آئی۔  وسائل کی ہم بات کرتے ہیں تو پھر جب پاکستان بننے اور بلوچستان پر قبضے کے بعد جو انھوں نے پہلا وسائل دریافت کیا وہ سوئی کے علاقے میں گیس تھی۔ اس نے باقاعدہ 1953 یا 1954 سے سپلائی کی۔ ایک دو سال کام اور نیٹ ورکنگ میں لگے، 1954 سے اس نے پاکستان کو گیس سپلائی شروع کی ہے۔ اس کے بعد جو وقت بہ وقت دریافت ہوئے ہیں، سوئی کے مختلف مقامات پر، آج ایک سے زائد کنویں ہیں۔ باقی کاپر مائنز اور گولڈ مائنز، وہ پھر نوے کی دہائی میں پاکستان نے مختلف کمپنیوں سے کبھی چلی کے ساتھ، کبھی چلی اور کینیڈا جوائنٹ، اور آ ج وہی سلسلہ چلے آ رہے ہیں۔ اس لیے اس کو ہم ریسورس ریلیٹڈ تحریک نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہماری تحریک جو قوم دوستی کی تحریک ہے، وہ پاکستان بننے سے پہلے بھی اسی طرح تھی، اسی ڈگر پر چل رہی تھی، اور پاکستان کے قبضے کے بعد پاکستان کے خلاف جو مزاحمت ہے، وہ بھی اسی نظریہ پہ چل رہی ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے جو استحصال کی ہے، جو دنیا نے ترقی کی ہے، اس ریجن میں، پھر خلیج میں، چونکہ ہمارا ساحلی پٹی خلیج سے ملتی ہے، انھوں نے سمجھا وہاں تیل اور گیس دریافت ہوئے ہیں، وہ یہاں بھی [بلوچستان] بھی دریافت ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے ادھر دریافت کرنا شروع کیا۔ پھر آگے چل کر جو سیندک میں بیرک گولڈ کمپنی کے معاہدے ہیں پاکستانی سرکار کے ساتھ، یہ حال ہی کی باتیں ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں