آزادی کے جانب بڑھتا بلوچستان

0
147

یہ گفتگو بی این ایم کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے انڈیا نریٹیو کے صحافی راول کمار کے ساتھ ٹویٹر پر ہوئے اسپیس پروگرام میں کی ہے جسے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

:ابتدائیہ

ہمیں اس نشست کے لیے دعوت دینے کا شکریہ۔ آپ کا شکریہ کہ آپ بلوچستان کے بارے میں بات کرتے ہیں، لکھتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا دکھ اور غم سمجھتے ہیں یا سنتے ہیں،  یقینا بحیثیت صحافی آپ لوگوں کا یہ فرض اور ذمہ داری بھی ہے۔

یہاں موجود یا آپ کے دیش میں موجود سننے والوں کے لیے کہ، جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو بہت سی چیزیں ذہن میں آجاتی ہیں۔ ایک وسیع سرزمین، ایک خوبصورت علاقہ جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں، اور سب اپنی آزادی سے اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کرتے ہیں [یا کرتے تھے، یہ ایک علیٰحدہ اور لمبی بحث ہے]۔ وہاں ہندو، سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں۔ آج تک کسی بلوچ نے کسی ہندو، سکھ اور عیسائی کو تکلیف نہیں پہنچائی ہے، بلکہ ان کی حفاظت کی ہے۔

جب ہم بلوچستان کی بات کرتے ہیں تو یہاں پر مختلف ادوار میں قابضین ذہن میں آتے ہیں۔ بلوچوں کی روایات اور مزاحمت یاد آتی ہے۔ ظاہر ہے یہاں پر ظلم و جبر، ایک آزاد ریاست سے کالونی بننا، یہ سب چیزیں، ہماری ذہن میں آجاتی ہیں۔ آج جب ہم بات کر رہے ہیں تو یہ بہت سی چیزیں یہاں نہیں ہیں۔ یعنی یہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں کوئی مذہبی پریکٹس نہیں کرسکتا۔ مطلب پہلے ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کی حفاظت کرتے تھے، آج ہم خود وہاں محفوظ نہیں ہیں۔ اس سرزمین کو پاکستان نے ایک جیل، دوزخ جسے ہندی میں ’نرک‘ کہتے ہیں، اس میں بدل دیا ہے ، اور ہم اس سے نکلنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔

گولڈ اینڈ بلڈ

آج کا مقبوضہ بلوچستان پاکستان کا آدھا حصہ ہے۔ پاکستانی مردم شماری کے مطابق آبادی کے حساب سے ہم بہت کم، دس ملین ہوں گے ، اور ہماری سرزمین قدرتی وسائل بشمول تیل، گیس، کوئلہ، تانبا، سونا اور دیگر معدنیات سے مالا مال ہے۔ ساتھ ہی بلوچستان ساڑھے سات سو کیلو میٹر پر مشتمل ایک وسیع ساحل کا مالک ہے۔ ایک انتہائی اہم اسٹریٹجک لوکیشن ہے۔آبنائے ہرمز سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ آبنائے ہرمز دنیا کا سب سے اہم اسٹریٹجک کوریڈورز میں سے ایک ہے، کیونکہ یہ عالمی توانائی کی سپلائی کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ پوائنٹ ہے۔ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA) کے مطابق، تقریباً 21 فیصد عالمی پٹرولیم لیکوائڈ آبنائے ہرمز سے گزرتی ہے۔  یہ گزرگاہ بلوچستان کے ساحل کی اہمیت کو بھی بڑھاتی ہے۔ اسی وجہ سے ساری دنیا کی نظریں بلوچستان پر ٹکی ہیں۔

یہاں پر برٹش، روس اور دیگر طاقتوں نے مختلف ادوار میں قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی ان کی نظریں یہاں لگی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے بلوچستان اپنی تاریخ کے بیشتر ادوار میں جنگوں اور مزاحمت کا  مرکز رہا ہے۔ بلوچ نے ہر وقت حملہ آووروں اور قابضین کے خلاف مزاحمت کی ہے۔اس کی ایک لمبی داستان ، جو آج بھی جاری ہے۔ 

وسائل کی بات ہو رہی تھی تو پاکستان کی جانب سے ہم پر قبضہ کے بعد 1954 سے پاکستان بلوچستان کے علاقے سوئی سے گیس نکال کر پاکستان کی گھریلو اور صنعتی ضروریات پوری کر رہا ہے مگر خود سوئی کے لوگ اس سے محروم ہیں۔ پاکستان میں آپ کسی سے پوچھیں، وہ قدرتی گیس کو سوئی گیس کے نام سے جانتا ہے۔ اس کے بعد ریکوڈک، سیندک پروجیکٹ، اس سے سونے چاندی کا نکلنا، ان کا استحصال، یہ چیزیں اس طرح جاری ہیں اور اس کے ساتھ پاکستان کی جانب سے جارحیت جاری ہے۔

”گولڈ اینڈ بلڈ“ کا فریز سب نے سنا ہے۔ جہاں سونا وہاں خون، اسے اس طرح سے استعمال کیا گیا ہے۔ دولت اور طاقت کے حصول میں اکثر تشدد اور انسانی مصائب (سفرنگ) شامل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم بلوچستان میں اس کا سامنا کر رہے ہیں ۔شاید وہ سمجتھے ہیں، دولت، جیسے کہ سونا، چاندی،  دوسروں کی زندگیوں کی قیمت پر حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے لیے جارحیت یا استحصال کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جو پاکستان ہر سطح پر کر رہا ہے۔

مثال کے طور پر، نوآبادیات یا سامراج کے تناظر میں، ”سونے اور خون“ کا مطلب کالونیوں میں قدرتی وسائل اور زمین کا استحصال ہے۔ اس میں لوگوں کی نقل مکانی، غلامی، یا مقامی لوگوں کی نسل کشی شامل ہوتی ہے۔

کچھ لوگ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں کہ حکومت پاکستان بلوچ عوام کو مناسب حصہ دیے بغیر بلوچستان کے وسائل کا استحصال کر رہی ہے، اسی وجہ سے وہاں ایک مزاحمت چل رہی ہے۔ اس کو واضح کرتے ہیں کہ اس طرح کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ قوم حصہ مانگ رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں بلوچستان میں اتنا خون بہنے کے بعد بلوچ کو اپنی سرزمین چاہیے، نہ کہ اپنی سرزمین پر دوسروں کا غلام بن کر اپنے ہی مال میں چھوٹا حصہ لینا ہے، یقینا یہ ہمارا مقصد یا مطالبہ نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ آزادی ہے، جو ہمارا حق بھی ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں