بدھ کے روز یونان کے ساحل سے 80کلومیٹر کے فاصلے پر گہری سمندر میں تارکین وطن کی ڈوبنے والی کشتی میں خدشہ ہے کہ 600سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وہ تارکین وطن تھے، جو لیبیا سے انسانی سمگلروں کو بھاری رقوم ادا کر کے ماہی گیری کی ایک کشتی کے ذریعے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان تارکین وطن میں ایک بڑی تعداد پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر سے تھی۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گجرات، منڈی بہاؤالدین، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں کے نوجوان اس کشتی میں سوار تھے، جبکہ جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی کی مختلف تحصیلوں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کشتی میں سوار تھی۔
ابھی تک کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق 21نوجوانوں کا تعلق نہ صرف ایک ہی گاؤں سے تھا، بلکہ وہ آپس میں رشتہ دار بھی تھے۔ تاہم اب تک زندہ بچنے والے نوجوانوں میں 10پاکستانی کے صوبہ پنجاب سے اور2جموں کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ 78لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جنکی شناخت کا عمل جاری ہے۔ 104افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔
یورپی ساحلوں پر ڈوبنے والا یہ پہلا جہاز نہیں ہے اور شاید یہ آخری بھی نہ ہو۔ اس جہاز کے ڈوبنے میں جہاں یونانی اور یورپی حکام کی غفلت اور تارکین وطن دشمنی کا عنصر شامل ہے، وہیں انسانی سمگلنگ سے منسلک مافیا بھی اس کا ذمہ دار ہے، جو ماہی گیری کی ایک کشتی میں 700افراد کو لاد کر سمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
کشتی کے ڈوبنے کی خبر آنے کے بعد مختلف تبصرے ہو رہے ہیں۔ عوامی رد عمل کے بعد پاکستانی حکمران اور سفارتخانے کے ذمہ داران نے پھرتیاں دکھانا شروع کی ہیں۔تاہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاملے کو ایک غیر قانونی اقدام تک محدود کر کے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بات مگر کوئی بھی سوچنے یا کہنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ سماج اتنا گھٹن زدہ،اتنا بوسیدہ اور اتنا پست ہو گیا ہے کہ اس میں انسان کی سانس گھٹ رہی ہے۔ ہر انسان یہاں سے فرار ہونا چاہتا ہے۔ بہتر زندگی کیلئے موت کی بازی لگانے کیلئے تیار ہونے والے نوجوانوں کو خودکشی کے مترادف اس انتہائی اقدام تک جانے کیلئے تحریک دینے والی وجہ اتنی معمولی نہیں ہو سکتی۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش ہی روزگار کے واحد بڑے ذریعے کے طور پر موجود ہے۔ اس خطے کے حکمرانوں کا خیال یہ ہے کہ نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ جانے کا شوق ہے۔ تاہم جن راستوں سے گزر کر یہ نوجوان بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں ان کے بارے میں جان کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شوق کے تحت کوئی انسان یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا ہے۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ نوجوان 18سال کی عمر تک پہنچتے ہی بیرون ملک جانے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں؟
اس خطہ کی آبادی45لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ 60فیصد آبادی 18سے35سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سرکاری ملازمتوں سمیت روزگار کے جتنے بھی ذرائع ہیں انکا دارومدار بیرون ملک مقیم تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم پر ہی منحصر ہے۔ حکومتی آمدن کا واحد بڑا ذریعہ بلواسطہ و براہ راست محصولات ہیں۔ حکومت سرکاری سطح پر92ہزار565ملازمتیں مہیا کررہی ہے، 41ہزار203پنشنرز ہیں۔روزگار کے دیگر ذرائع میں نجی سکولوں میں 35ہزار ملازمین، سمال اور میڈیم انڈسٹری میں کام کرنے والے 4408ملازمین اور نجی بینکوں میں کام کرنے والے 3447ملازمین کوروزگار میسر ہے۔ روزگار کا ایک بڑا حصہ چھوٹا کاروبار ہے، جس میں ہول سیل، ریٹل کی دکانوں کے علاوہ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز وغیرہ ہیں۔ مجموعی طور پر 1لاکھ8ہزار827چھوٹی بڑی دکانیں اور ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز وغیرہ اس ریاست میں موجود ہیں۔ یوں مجموعی طور پر اس ریاست میں 3لاکھ سے کچھ زیادہ لوگ روزگار کے ساتھ منسلک ہیں۔
دوسری طرف سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 6لاکھ64ہزار440افراد بیرون ملک ہیں۔ سرکار کے پاس ایسے تارکین وطن کا ہی ڈیٹا میسر ہے، جنہوں نے اوورسیز شناختی کارڈ بنوا رکھا ہے۔ جو لوگ غیر قانونی طور پر بیرون ملک گئے، شہریت ترک کر دی، یا پھرسیاسی پناہ حاصل کرنے کی وجہ سے اوورسیز کارڈ نہیں بنوایا ان کے اعداد و شمار ہی میسر نہیں ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 12سے 15لاکھ شہری دنیا کے مختلف ملکوں میں قانونی و غیر قانونی طریقوں سے محنت مزدوری کر رہے ہیں۔
ان تارکین وطن کی بھیجی گئی رقوم سے ہی ان کے خاندان خریداری کرتے ہیں، بچوں کو نجی سکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں، نجی ہسپتالوں میں علاج معالجہ کرواتے ہیں، زمین جائیداد خریدتے ہیں۔ اس خریداری کی وجہ سے ایک کنزیومر مارکیٹ چلتی ہے، اس مارکیٹ سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اسی خریداری کے عمل کے دوران بالواسطہ محصولات جمع ہوتے ہیں اور حکومتی آمدن سے سرکاری روزگار کا ذریعہ چلتا ہے۔ یوں تارکین وطن ہی ہیں جو اس خطے کی معیشت کو چلانے کیلئے اپنی پوری زندگیاں قربان کر رہے ہیں۔ اگر یہ تارکین وطن نہ ہوں تو اس خطے میں جو روزگار موجود ہے، وہ بھی محال ہو۔
اس خطے کے حکمرانوں نے سامراجی سہولت کاری کی قیمت وصول کرنے اور اپنی عیاشیاں کرنے کے علاوہ کوئی ایک ایسا اقدام نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس معاشرے کو تعمیر کیا جا سکے، روزگار پیدا کیا جا سکے، یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جا سکے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیروزگار ی کی شرح 10.71ہے، جبکہ انہی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح7.8فیصد ہے۔ تاہم خواتین میں بیروزگاری کی شرح22.89فیصد ہے، نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح18.44فیصد ہے،20سے25سال کے نوجوانوں میں 24.63فیصد اور25سے30سال کے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح16.1فیصد ہے۔
اس نظام اور اسکے رکھوالوں کے پاس بیروزگاروں کی اس فوج کو دینے کیلئے اب جھوٹا وعدہ بھی نہیں ہے۔ 53کے ایوان میں سارے ہی حکومت میں ہیں، خود ہی اپوزیشن بھی ہیں۔ سارے ایوان کو وزارتوں کے قلمدان دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ وسائل کو لوٹنے اورعوامی محصولات پر نقب لگانے کے علاوہ کوئی پروگرام اور منشور نہیں ہے۔ قانون سازی کیلئے منتخب ہونے والے لوکل گورنمنٹ کی سکیموں کو ہتھیانے اور وزارتوں کے فنڈز لوٹنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔
نہ نوجوانوں کے پاس کوئی مستقبل کی امید ہے، نہ بزرگوں کا بڑھاپا محفوظ ہے۔ اپنے خاندان کیلئے بہتر زندگی کی تلاش، بچوں کے مستقبل کی تعمیر کی امیدیں نوجوانوں کو ان سرسبز وادیوں کو ترک کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ والدین کی جمع پونجی خرچ کر کے عرب کے تپتے صحراؤں میں زندگی جھونکنے کی کوشش سے قانونی و غیر قانونی راستوں سے یورپ، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش تک ہر دروازے پر دستک دی جاتی ہے۔ عرب ملکوں میں قانونی طور پر جانا نسبتاً آسان ہے، لیکن زندگی بھر کی مشقت کے بعد طابوت میں لاش وطن میں آنے کا خوف اور اس کے بعد خاندان کی نظر آتی اذیتیں مجبور کرتی ہیں کہ ایک ہی بار موت کی بازی کھیلی جائے۔
ایران و ترکی کی سرحدیں عبور کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش ہو، برازیل سے پورے لاطینی امریکہ کی سرحدیں عبور کر کے پیدل امریکہ پہنچنے کا خطرناک کھیل ہو، یا پھر افریقہ سے کشتیوں میں یورپ تک رسائی حاصل کرنے کی موت کی بازی اس امید پر لگا لی جاتی ہے کہ اگر بچ گئے تو اپنے خاندان کو ایک بہتر مستقبل مہیا کرنے کی سعی کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
ان راستوں میں سرحدی محافظوں کی گولیاں، برفیلے راستوں کی کٹھنائیاں، سنگلاخ پہاڑوں کی قاتل کھائیاں اور سمندر کی گہری خونخوار لہریں وہ طاقتور رکاوٹیں ہوتی ہیں، جنہیں عبور کرنے کیلئے یہ نوجوان زندگی کا جوا کھیل جاتے ہیں۔ بہتر مستقبل کی تلاش میں ہر سال سینکڑوں گمنام موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی لاشیں بھی ورثاء تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
اس نظام نے انسانوں کو اس اذیت سے دو چار کر دیا ہے کہ زندہ رہنے کیلئے موت سے کھیلنا معمول بنتا جارہا ہے۔ اس موت کے کھیل میں زندہ بچ جانے والوں کی محنت پر پلنے والے حکمران ان گمنام لاشوں کو ایک ’شوق‘ قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
انہی تارکین وطن کے زرمبادلہ کو استعمال میں لاتے ہوئے اس معاشرے کو ان خطوط پر تعمیر کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں نوجوانوں کو زندگی کیلئے موت کا کھیل کھیلنے پر مجبور ہونے سے روکا جا سکے۔ اس خطے میں موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ بنیادی انفراسٹرکچر تعمیر کیا جا سکتا ہے کہ جس کی بنیاد پر ایک صحت مند معاشرہ تعمیر کیا جا سکے۔ تاہم سرمائے کے جبر اور نوآبادیاتی قبضے کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس نظام اور اس کے تحت حکمرانی کرنے والوں کو برباد کئے بغیر انسانی معاشرے کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ سمندر کی لہروں اور گمنام گھاٹیوں و گولیوں کی بھینٹ چڑھنے والے نوجوانوں کی موت کا انتقام بھی اس نظام سے لیا جائے گا۔ انتقام ایک ایسی بستی بسانے کیلئے کہ جہاں انسان محرومی و استحصال کی ہر شکل سے ناآشنا ہو کر کائنات کو مسخر کرنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دینے میں مشغول ہو سکے۔