گلگت بلتستان: نوآبادیاتی مفادات کے تقاضوں سے تبدیل ہوتی وفاداریاں

0
135

مورخہ 4 جولائی 2023 ء کو گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت کے چیف منسٹر خالد خورشید کو ایک جعلی ڈگری کیس میں چیف کورٹ گلگت بلتستان نے نا اہل قرار دے دیا۔ اس طرح پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے اس پہلے کئی بار جمہوری طریقہ سے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت گرانے میں اپوزیشن جماعتیں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ناکام ہوچکی تھی، مگر یہ کام پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی عدالتی فیصلہ کے ذریعے ہی سر انجام دیا گیا۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے چہیتے چیف منسٹر گلگت بلتستان خالد خورشید کی نااہلی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان میں تحریک انصاف پاکستان کے رہنماؤں نے پلک جھپکتے ہی اپنی راہیں جدا کیں اور پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

اس وقت گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے تین گروپ بن گئے ہیں۔ ایک گروپ ہم خیال گروپ کہلاتا ہے، دوسرا فارورڈ بلاک اور تیسرا گروپ خالد خورشید کا ہے، جنہیں نہ صرف عدالت نے نا اہل قرار دیا ہے بلکہ آئندہ ڈھائی سال کے لئے الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے عدالتی فیصلہ کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کی حکومت تاش کے پتوں کی بکھر گئی ہے۔ اس کے باوجود اس وقت گلگت بلتستان میں خالد خورشید واحد شخص ہیں جو آج بھی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس لئے عمران خان نے عدالت سے نا اہلی کے باوجود خالد خورشید کو گلگت بلتستان تحریک انصاف کا صدر بدستور برقرار رکھا ہے۔ تاہم عمران خان کی جماعت کے دیگر رہنما اور وزیر، مشیر پارٹی کو خیر آباد کہہ کر نئی حکومت کا حصہ بن چکے ہیں یا پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے بالکل خاموش ہو گئے ہیں۔

تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد فارورڈ بلاک کے رہنما حاجی گلبر خان PDM کی حمایت سے نئے قائد ایوان منتخب ہو چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قائد ایوان کی دوڈ میں گلبر خان کے حریف امیدوار بھی تحریک انصاف حکومت کے ایک سابق وزیر راجہ اعظم خان تھے، جو اپنے آپ کو ہم خیال گروپ کا متفقہ امیدوار قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم اور اسلامی تحریک و دیگر ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ آج گلگت بلتستان میں قائد ایوان کی الیکشن کا متفقہ طور پر بائیکاٹ کیا اور اپوزیشن جماعتوں ایم ڈبلیو ایم، اسلامی تحریک اور بالخصوص پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر بننے والے ہم خیال گروپ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ ان کے ممبران کو زبردستی فارورڈ بلاک میں شامل کرنے کا اسٹبلشمنٹ پر الزام بھی لگایا گیا ہے۔ اس طرح ایک اور سیاسی بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

قائد ایوان کے اس الیکشن پر یوں تو بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے لیکن اس کے باوجود آج جب گلگت بلتستان اسمبلی کے قائد ایوان حاجی گلبر صاحب منتخب ہوئے تو اسی دوران اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قوم پرست رہنما،گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن و بالاورستان نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نواز خان ناجی نے کہاکہ ”جناب چیف منسٹر آپ کو مبارک ہو کیونکہ آپ بھی اسی طرح ہی چیف منسٹر بنے ہیں، جس طرح آپ سے پہلے لوگ گلگت بلتستان اسمبلی کے چیف منسٹر بنےتھے۔یہ پریکٹس 1947ء سے چل رہی ہے چنانچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔“

انکا مزید کہنا تھا کہ ”یہ ایک مظلوم اسمبلی ہے۔ مقتدر ایوان کہہ کر اس اسمبلی میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ میں چیف منسٹر کو مبارک دینے کے علاوہ اپنے تمام دوستوں کو بھی مشروط مبارکباد دیتا ہوں۔ وہ شام کو آرام سے بیٹھ کر سوچیں کہ اس ماہ کے دوران ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اگر وہ ضمیر کے مطابق ہے تو آپ کو مبارک ہو، بصورت دیگر یہ قابل مذمت عمل ہے۔ اس پر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے اور خود مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں اسلام آباد کی مداخلت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔“

واضح رہے چند دن قبل قائد ایوان کی الیکشن کو عدالتی حکم سے روکنے کے بعد گلگت بلتستان اسمبلی کو پولیس نے سیل کر دیا تھا۔ اسمبلی ممبران اور سپیکر گلگت بلتستان اسمبلی کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ جس پر پاکستان کے سنیٹر رضا ربانی نے قومی سمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”پولیس نے جس طریقے سے گلگت بلتستان اسمبلی کو سیل کیا یہ پارلیمانی تاریخ میں سیاہ ترین دن تھا۔ یہ آپ کی جمہوریت کے لئے خطرہ کے علامات ہیں۔“

گلگت بلتستان اسمبلی کی بے توقیری کی بنیادی وجہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء ہے، جس کو بنانے میں گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران کا کوئی اختیار اور کردار شامل نہیں ہے۔ نہ ہی اس آرڈر کو گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ یا چیف کورٹ گلگت بلتستان میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک صدارتی حکم نامہ ہے جس کے تحت اختیارات کا مالک وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیر امور کشمیر ہے، جو اس خطے میں ایک بادشاہ سے زیادہ اختیارات رکھتا ہے۔ چنانچہ اس خطہ بے آئین میں حکومت اس وفاقی جماعت کی ہوتی ہے، جس کی وفاق پاکستان میں حکومت ہوتی ہے یا جسے ان کی مکمل تائید اور سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ گلگت بلتستان میں راتوں رات نہ صرف حکومت بنائی جاتی ہے بلکہ گرانے میں بھی دیر نہیں لگتی۔ لوگ بھی ان جماعتوں کے ارد گرد منڈلاتے ہیں، جن کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے۔ حکومت ختم ہوتے ہی لوگوں کی وفا داری بھی یکسر بدل جاتی ہے۔ جس طرح آج کل گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کے تمام رہنما اور وزیر مشیر پارٹی سے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ماضی اس طرح کی مثالوں سے بھرا ہواہے۔

گلگت بلتستان کی تاریخ کا المیہ دیکھیں کہ 745 صدی عیسوی میں تبت اور چین کی افواج نے گلگت کی وادیوں میں ان اہم سٹریٹیجک راستوں پر کنٹرول کے لئے جنگ لڑی۔ اس خونی جنگ میں جب چینی افواج جیت گئیں اور تبت کی فوج کو شکست ہوئی، تو اس جنگ کے نتیجے میں بلور ریاست ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد ہمارے لوگوں نے فاتح فوج کا ساتھ دیا۔ اس طرح کی ایک اور اہم مثال موجود ہے، جب 1840ء کے بعد پنجاب کے سکھوں نے حملے کئے تو شکست کے بعد ان کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد جموں کے ڈوگروں اور برٹش انڈیا نے شکست دی تو ان کا ساتھ دیا۔بعدازاں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے فورا ًبعد سردار محمد عالم کا ساتھ دیا،جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔درحقیقت یہ ایک طویل المدتی نوآبادیاتی نظام کے زیر تسلط نفسیات ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلامی تحریک،ایم ڈبلیو ایم اور گلگت بلتستان ہم خیال گروپ کا گلگت بلتستان قائد ایوان کے لیے ہونے والے الیکشن سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد گلگت بلتستان کے اجتماعی قومی مفادات کے لئے گلگت بلتستان کے نوجوان کیا کردار ادا کرتے ہیں؟

کیا وہ فرقہ واریت، علاقہ پرستی اور رنگ نسل سے بالاتر ہوکر امن، ترقی و تبدیلی کے لئے سیاسی جدوجہد کرتے ہیں یا پھر لا لا موسی، رائیونڈ، زمان پارک یا پھر بدستور بڑے بھائی کے پیچھے پیچھے نعرے لگاتے پھرتے ہیں؟ اس سوال کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں