پاکستان میں ادویات سازی کا کام کرنے والی کمپنیوں کی اکثریت ادویات کی تیاری میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں پاکستان میں آنے والے سمگل شدہ،غیر معیاری اور انتہائی سستے خام مال کے علاوہ تیاری کے لئے درکار دیگر اشیاء استعمال کرتی ہے۔ کمپنیاں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کو رشوت دے کر ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال اور دیگر اشیاء کے اصل نرخ اور مال کے قانونی یا قانونی طریقہ سے خریدے جانے سے متعلق انسپیکشن بھی نہیں کرنے دیتے۔
اسی طرح وزارت صحت اور ڈریپ حکام ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور دیگر اشیاء کے معیاری ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ بھی نہیں لیتے ہیں۔
دوسری طرف یہ دواساز مافیا آئے روز قیمتیں بڑھانے کی درخواست اس لئے کرتا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے خام مال اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھی جائے کہ سمگل شدہ خام مال سے بنی ادویات غیر معیاری ہونے کی وجہ سے مختلف دیگر بیماریوں کا بھی سب بنتی ہیں۔ خطہ میں سب سے زیادہ مہنگی دوائی خریدنے کے باوجود مریض فوری صحت یاب بھی نہیں ہوپاتا ہے۔
کیا ڈریپ حکام نے اس امر کا جائزہ لیا کہ ادویات سازی میں استعمال ہونے والا خام مال اور دیگر اشیاء قانونی طریقہ سے خریدی گئی ہیں؟
ایف بی آر،بالخصوص کسٹمز حکام کو اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ دوا ساز کمپنیاں سالانہ کتنی ادویات تیار کررہی ہیں اور ان کی تیاری میں کتنا خام مال اور دیگر اشیاء استعمال ہوئی ہیں اور کیا وہ قانونی طور پر خریدی گئی ہیں اور ان پر تمام حکومتی محاصل ادا کئے گئے ہیں یا نہیں؟
نیب اور ایف آئی اے کو بھی اس حوالہ سے تحقیقات کرنی چاہئیں کہ ادویات کی قیمت کا تعین کرتے وقت خام مال اور دواسازی کے لئے درکار دیگر لازمی لوازمات کو بنیاد بنا کر آئے روز جو قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں کیا اس دوران اس پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں کہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیاء قانونی طریقہ سے خریدی گئی ہیں؟
واضح رہے کہ گزشتہ 5سالوں میں ادویات کی قیمتوں میں کم و بیش 700 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت 200 فیصد تک بھی نہیں بڑھی ہے۔