گلگت بلتستان کا امن وامان ایک بار پھر خطرے میں پڑچکا ہے ، نائب خطیب جمعہ سکردوعلامہ سید باقرالحسینی کے خلاف توہین صحابہ کے جھوٹے الزام کی آڑ میں چلاس اور دیگر علاقوں میں شیعہ قتل عام کی دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ سرعام خون خرابے کے اعلانات پر ریاستی ادارےخاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق چلاس میں مشتعل مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولوی فرمان ولی نے شیعہ عوام کو کھلےعام قتل کرنے اور ان کی جان ومال کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی ہیں اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی گئی ہے ۔
مذکورہ ویڈیو میں مولوی فرمان ولی نے علامہ سید باقرالحسینی نائب خطیب جمعہ سکردو پر توہین صحابہ کا جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے پولیس سے فوری مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا اور ایف آئی آر کے عدم اندراج کی صورت میں شیعیان گلگت بلتستان کو شاہراہ قراقرم پہ چلاس کے مقام پرماضی کی قتل وغارتگری کی یاد دلاتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دیں۔
مولوی فرمان ولی نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات کو سنجیدہ نا لیا گیا تو کسی بھی واقعے کی ذمہداری ہم پر عائد نہیں ہوگی اور ناہی بعدمیں ہم سے کوئی شکایت کی جائے، واضح رہے کہ کھلے عام شیعہ قوم کو قتل عام کی دھمکیاں دیئے جانے کے باوجود گلگت بلتستان انتظامیہ اور ریاستی ادارے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں اور کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کا تاحال کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
یاد رہے کہ دس برس قبل چلاس اور کوہستان کے مقام پر راولپنڈی سےسکردو جانے والی بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر شیعہ مسافروں کو اتارا گیا تھا اور انہیں سر عام بے دردی سے گولیوں سے بھونہ گیا تھا اور اس سفاکانہ کارروائی کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل بھی کی گئی تھی آج تک ان دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیااور اب یہ دہشت گرد مزید قتل وغارت کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
یاد رہے یہ بل 1998 میں بھی پیش کیا گیا تھا مگر پاراچنار کے بزرگ عالم دین سابقہ سینٹر علامہ سید جواد حسین ھادی نے یہ بل دشمن اہل بیت اور شیعہ دشمن بل قرار دے کر کر مسترد کردیا تھا۔
اس بل کی منظوری کے لئے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ نے کافی محنت کی۔
دیامر میں کے کے ایچ روڈ بلاک کر کے کھلے عام شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے اور گزشتہ کی طرح کے حالات پیدا کرنے اور قتل کی دھمکیاں دی گئی۔ ایسے حالات میں شیعہ افراد خود کو اس روڈ پر محفوظ نہیں سمجھتے جن کو بار ہا شناختی کارڈ چیک کر کے بسوں اور گاڑیوں سے اتار کر گولیوں سے بھون دیا گیا۔
انہیں حالات کے پیش نظر دیامر چلاس ریجن میں تعینات بلتستان سے تعلق رکھنے والے پولیس فورسز اور اسپیشل پروڈکشن یونٹ کے جوانوں کے والدین نے اپنے بیٹوں کو ندی نالوں سے فوری واپس بلانے کا مطالبہ کردیا، والدین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ان علاقوں میں ایس پی یو کے جوانوں کو تعینات رکھنے پر انہیں شدید تحفظات ہیں، ان کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں، آئی جی گلگت بلتستان فوری ہماری آواز سُنیں۔
دیامر کے علماء تقاریر اور دھمکیوں کے بعد احتجاج کا دائرہ پورے گلگت بلتستان میں پھیل گیا ہے، مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال اور ہر جگہ روڈ بلاک اور احتجاجی ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔
جیل گڑھ چوک پہ احتجاج سے تقریر کرتے ہوئے ایک جوان نے کہا جہاں شیعوں کی زندگی محفوظ نہیں تو ہم سے بھی کوئی خیر کی توقع نہ کے جائے۔ یہ سب کُچھ حکومت کی ایما پر ہو رہا ہے، متنازعہ خطے میں حکومت پاکستان اگر ہماری جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی تو ہمیں پاکستان آنے میں کوئی دلچسپی نہیں، ہمارے تاریخی راستے اور کارگل روڈ کھولا جائے اور ہمیں کارگل جانے دیا جائے۔ ہم شوق سے کارگل جائینگے۔