لیبیا کے بندرگاہی شہر ڈیرنا میں دو ڈیم پھٹنے کے باعث آنے والے سیلاب کے باعث کم از کم 10 ہزار افراد لاپتہ ہیں، جبکہ 5300 سے زائد ہلاکتیں ہو گئی ہیں۔ خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
گارڈین کے مطابق لیبیا کے مشرق میں کنٹرول کرنے والی انتظامیہ کے ترجمان محمد ابولاموشہ نے منگل کو ایک سرکاری خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 5300 سے تجاوز کر گئی ہے۔
مشرقی حکومت کے ایک اور نمائندے طارق الخراز نے کہا کہ پورے محلے بہہ گئے ہیں اور بہت سی لاشیں سمندر میں بہہ گئی ہیں۔
ان کے مطابق سیکڑوں لاشوں کا ڈھیر قبرستانوں میں پڑا تھا، جن میں سے چند زندہ بچ جانے والے ان کی شناخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 ہزار سے بڑھ جائے گی۔
شہری ہوابازی کے وزیر نے کہا کہ ’سمندر میں، وادیوں میں اور عمارتوں کے نیچے ہر جگہ لاشیں پڑی ہیں۔ میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا ہوں، جب میں یہ کہتا ہوں کہ شہر کا 25 فیصد حصہ غائب ہو گیا ہے، بہت سی عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں۔
ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل نے کہا کہ دسیوں ہزار لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن کے گھروں کو واپس جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پورے گاؤں سیلاب کی زد میں آچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
شہری سوشل میڈیا پر لاپتہ لواحقین کی معلومات کیلئے اپیل کر رہے تھے۔ بہت سے لوگ امدادی کارروائیوں کی سست رفتاری اور مقامی حکام کیجانب سے ڈیموں کے پھٹنے کے خطرے سے آگاہ کرنے میں ناکامی پر ناراض تھے۔
انجینئروں نے پہلے ڈیموں کے پھٹنے کے خطرے اور اپنے دفاع کو مضبط کرنے کی فوری ضرورت کے بارے میں ایک عمومی وارننگ جاری کی تھی۔ تاہم حکام کی جانب سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
لیبیا میں قائم ایک تھینک ٹینک کے بانی انس ال گوماتی نے کہا کہ ’اس کی تحقیقات کی ضرورت ہو گی۔ شمالی افریقہ موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ نہیں ہے، لیکن یہ بدعنوانی اور نااہلی کا معاملہ زیادہ ہے۔ مراکش میں شاید آپ کے پاس سیکنڈ یا منٹ تھے، جب ٹیکٹونک پلیٹیں حرکت میں آئیں، لیکن یہاں لیبیا میں اس سمندری طوفان کے بارے میں کافی انتباہ موجود تھا۔ پھر بھی ڈیرنا سے کوئی انخلا نہیں ہوا اور اب شہر کی ایک چوتھائی آبادی زیر آب ہے۔‘
ایک تعلیمی جریدے میں 2022ء کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر 1959ء میں آنے والے سیلاب جتنا سیلاب دوبارہ آ گیا تو دو ڈیموں میں سے ایک کے ٹوٹنے کا امکان ہو گا، جس سے وادی اور ڈیرنا شہر کے رہائشیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال لیبیا 2011ء کی ایک بغاوت کے بعد سے سیاسی لڑائی، بدعنوانی اور سامراجی مداخلت سے شدید متاثر ہے۔ معمر قذافی کو تخت الٹے جانے اور ان کی موت کے بعد ایک دہائی تک کی کوششوں کے باوجود ایک متحد کام کرنے والی حکومت تشکیل نہیں دی جا سکی۔ لیبیا اس وقت اپنی اپنی ملیشیاؤں کے حمایت رکھنے والی دو حریف حکومتوں کے کنٹرول میں ہے۔ مغرب میں طرابلس اور مشرق میں توبروک میں یہ حکومتیں قائم ہیں۔
ڈیرنا کئی سالوں تک اسلام پسند عسکریت پسندگروپوں کے زیر کنٹرول رہا، یہاں تک کہ اسے 2019ء میں جنرل خلیفہ حفتر نے اپنے قبضے میں لے لیا، جو مشرق میں ایک فوج کے انچارج تھے۔
مشرقی حکومت شہر کے بارے میں گزشتہ چار سالوں سے مشکوک رہی اور رہائشیوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔
طوفان ڈینیئل کی وجہ سے آنے والے سیلاب کی وجہ سے مواصلاتی نظام مکمل طو رپر منقطع ہو گیا اور ڈیرنا میں انٹرنیٹ تک رسائی منقطع ہو گئی ہے۔