شیعہ مخالف بل کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کا بدلتا منظر نامہ، اور کارگل روڈ کھولنے کی مانگ

0
150

گلگت بلتستان دنیا کے مشہور و معروف بلند و بالا پہاڑوں کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور کوہ قراقرم کے بیچ ایک خوبصورت اور حساس خطہ ہے۔ میں اس خطے کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔

22 مئی 1988 گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس کے اثرات سے یہ خطہ اب تک نہیں نکل سکا یہ تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس دن تمام تر فوجی ساز و سامان سے لیس ریاستی مشینری کی مکمل پلاننگ اور حمایت سے مجاہدین نے اس علاقے پر شیعہ لشکر کشی کے غرض سے چڑھائی کی۔ گلگت کے مضافاتی علاقے شرٹ بارگو بالخصوص جلال آباد میں شیعہ قتل عام کیا۔ گھر اجاڑے گئے کئی لڑکیوں کو اغوا کیا گیا کھڑی فصلوں اور گھروں کو آگ لگائی گئی اور جانوروں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان 48 ہزار مربع میل کا علاقہ ہے جس میں شیعہ، شیعہ امامی اسماعیلی اور نور بخشی مسلک ملا کر تقریبا 70 پرسنٹ آبادی شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ اس علاقے سے ریاستی سرپرستی میں شیعوں کا خاتمہ کر کے افغان مہاجروں کو بسانے کی مذموم کوششیں روز ازل سے جاری ہیں۔
یاد رہے کہ یہ بل 1988 میں بھی پیش کیا گیا تھا اور پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر علامہ سید جواد حسین ہادی نے یہ بل شیعہ دشمن بل قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ اس بل کی منظوری کے لیے تب بھی ریاستی سرپرستی میں اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر کلعدم سپاہ صحابہ نامی دہشت گرد تنظیم نے محنت کی تھی جو کہ اب رنگ لائی ہے۔
حالیہ شیعہ مخالف بل کو پیش کرنے والا چترالی رکن اسمبلی بھی جماعت اسلامی کا رکن ہے۔ اس بل کی منظوری سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس ملک میں جرنیلوں کی اجازت اور ایما کے بغیر پارلیمنٹ ایک بھی بل پاس نہیں کر سکتی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شیعہ مخالف ترمیمی بل جرنیلوں کی آشیرباد کے بغیر پاس ہوا ہے۔
پاکستان میں اج تک ہر شیعہ مخالف ہتھکنڈے کے پیچھے فوج کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اور اس ترمیمی بل کے پیچھے بھی جی ایچ کیو کی سازش نہیں تو کیسے یہ بل پاس ہوا؟

سانحہ 1988 کو حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کے مشترکہ ایجنڈے کے تحت لشکر کشی کے نتیجے میں جہاں درجنوں گاؤں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا، ہزاروں مال مویشی کو بھی مار دیا گیا اور گھروں، شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں کو نظر اتش کرنے کے نتیجے میں ہزاروں قرآن شریف بھی جل گئے اور حکومتی سرپرستی میں شیعوں کی لشکر کشی کی گئی۔
شیعہ مخالف بل کے خلاف گلگت بلتستان بالخصوص سکردو میں احتجاج اور باقر الحسینی کی تقریر کو جواز بنا کر توہین صحابہ کے جھوٹے الزام کی آڑ میں چلاس،کوہستان اور دیگر علاقوں میں کے کے ایچ بلاک کر کے دوبارہ شیعہ قتل عام کی دھمکی دی گئی اور سرعام خون خرابے کے اعلان پر حکومت اور ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے۔
چلاس میں مشتعل مظاہرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مولوی فرمان ولی نے شیعہ عوام کو قتل عام کرنے اور ان کی جان و مال کو نقصان پہنچانے کے لیے دھمکیاں دی ہیں جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

چلاس، کوہستان اور لولو سر میں پیش انے والے شیعہ قتل عام کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعیان گلگت بلتستان بالخصوص سکردو اور بلتستان ڈویژن سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حکومتی ایماں پر ہونے والے سابقہ واقعات اور حالیہ دھمکیوں کے پیش نظر یہ اعلان کیا ہے کہ شیعوں کی جان و مال اور عزت و ابرو کے تحفظ اور بقا ممکن نہیں لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اپنے سابقہ اور تاریخی راستے کارگل کو کھولا جائے تاکہ کارگل سے اپنے سابقہ راستے اور رشتوں کو بحال کیا جائے بلتستان کے باسی پاکستان اور افواج پاکستان کے وفادار اور خیر خواہ تھے جس کا بدترین صلہ دیا گیا لہذا اب وقت ان پہنچا ہے کہ اپنی وفا کو سنبھالی جائے اور اپنے تحفظ اور بہتر مستقبل کے لیے منظم تحریک چلائی جائے تاکہ بلتستان اور کارگل دوبارہ جڑ سکے اور تاریخی راستے پھر سے کھل سکیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں