کچھ ممالک نے حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت کی لیکن اکثر نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس اہم ایشو پر بلائے گئے اجلاس میں نہ تو کوئی باضابطہ قرارداد پیش کی جا سکی اور نہ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔
اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سینیئر امریکی سفارت کار رابرٹ ووڈ نے روس کا نام لیے بغیر کہا کہ اجلاس میں حماس کی مذمت نہ کرنے والوں میں ایک ایسا ملک بھی تھا جس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسیلی نیبنزیا نے کہا کہ ہم فوری جنگ بندی اور ایسے بامعنی مذاکرات کے حق میں ہیں جس کا سلامتی کونسل کئی دہائیوں سے مطالبہ کر رہی ہے۔
ادھر اسرائیلی سفیر نے یرغمال اسرائیلی شہریوں کی تصاویر دیکھا کر حماس کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی دہائی دی۔
جواب میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا کہ افسوس کی بات ہے، میڈیا اور کچھ سیاست دانوں کی تاریخ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسرائیلی مارے جاتے ہیں اور جہاں اسرائیلی حکومت قاتل ہوتی ہے، یہ چپ سادھے رہتے ہیں۔
فلسطین اتھارٹی کے سفیر ریاض منصور نے مزید کہا کہ یہ وقت اسرائیل کے خوفناک جنگ کے انتخاب کی حمایت کا نہیں بلکہ اسرائیل کو جنگ کے انتخاب سے دستبردار کروا کر امن کا راستہ دکھانے کا ہے جہاں نہ فلسطینی مارے جائیں اور نہ ہی اسرائیلیوں کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔
ریاض منصور نے سلامتی کونسل اور عالمی قوتوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
چین کے سفیر نے اجلاس میں قرارداد کے پیش نہ ہونے اور اعلامیہ جاری نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر معمولی بات ہے کہ سلامتی کونسل نے کچھ نہیں کہا۔
واضح رہے کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے اسرائیل کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی اور منظم انداز سے شروع کیے گئے ’ آپریشن الاقصیٰ فلڈ ‘ میں اب تک 1000 سے زائد اسرائیلی شہری اور فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔