پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں شدید بارش اور سرد موسم کے باوجود ہزاروں طلبہ نے احتجاجی مظاہرے منعقد کئے۔ مظفرآباد، پونچھ اور میرپور ڈویژن کے تمام ضلعی اور تحصیل صدر مقامات سمیت چھوٹے بڑے بازاروں میں احتجاجی ریلیاں اور پروگرامات منعقد کئے گئے۔ جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے پاکستان کے بڑے شہروں اسلام آباد، لاہور اورکراچی میں بھی پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے۔
ان احتجاجی پروگرامات میں طالبات کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ طلبہ نے اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ سے متعلق نعرے بازی کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر کے وسائل پر خطے کے شہریوں کے کنٹرول کے حق میں بھی نعرے بازی کی۔
ان احتجاجی پروگرامات کا انعقاد جموں کشمیر میں 5ماہ سے جاری عوامی حقوق تحریک کے سلسلہ میں کیا گیا تھا۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 17اکتوبر کو ریاست گیر طلبہ احتجاجی مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ ایکشن کمیٹیاں قائم کرتے ہوئے یہ احتجاجی مارچ منعقد کئے گئے اور عوامی حقوق تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔
طلبہ ایکشن کمیٹی راولپنڈی اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقد کئے گئے احتجاجی مارچ کے آخر میں اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس احتجاج کا مقصد جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک کے مطالبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ یہ احتجاج راولپنڈی اسلام آباد میں رہنے والے طلبہ اور بالخصوص جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے مسائل کے خلاف منعقد کیا گیا ہے۔
ہمارا پہلا مطالبہ طلبہ یونین کی بحالی ہے، جو جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مرکزی پروگرام کا بھی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے دیگر مطالبات میں فیسوں میں کمی، ہاسٹل کی فراہمی اور انٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کا قیام، جن میں طلباء و طالبات کی نمائندگی شامل ہو۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ احتجاج جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک پر ہونے والے ریاست جبر کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام اسیران کو فی الفور رہا کیا جائے اور تمام مقدمات ختم کئے جائیں۔
یہ احتجاج جموں کشمیر کے طلبہ کی طرف سے پاکستان کے محنت کشوں، طالبعلموں، خواتین، وکلاء اور صحافیوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اس تحریک میں شامل ہوں۔
ہم جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں اور ان مطالبات کے حصول تک عوامی حقوق تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ جموں کشمیر میں طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے حکومت نے سخت منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ مختلف جامعات کے مین گیٹ بند کئے گئے۔ طلبہ کو تعلیمی اداروں کے اندر محصور کیا گیا۔ اس کے علاوہ نجی تعلیمی اداروں کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ اگر انہوں نے طلبہ کو احتجاج میں جانے دیا تو ان کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے گی۔
طالبات کو احتجاج میں شرکت کرنے سے خصوصی طور پر روکنے کیلئے انتظامات کئے گئے تھے۔ تاہم طلباء و طالبات نے تمام تر پابندیوں کے باوجود احتجاجی مظاہرے منعقد کئے ہیں۔
عوامی حقوق تحریک کے سلسلہ میں بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ تیسرے ماہ بھی جاری رکھا جائے گا۔ بجلی کے بل جمع کنے کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی کیمپ لگائے گئے ہیں، تاکہ شہری اپنے بجلی کے بل ان احتجاجی کیمپوں میں لا کر جمع کروا سکیں۔ گزشتہ ماہ 78فیصد شہریوں نے بجلی بلوں کا بائیکاٹ کیا تھا۔ رواں ماہ بھی بجلی کے بلوں کو جمع کر کے 28اکتوبر کو احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا جائے گا اور جمع کئے گئے بلوں کو جلایا جائے گا۔
دوسری طرف حکومت کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے۔ آج 18اکتوبر کو حکومت کے ساتھ مذاکراتی دور بھی شروع ہونے کا امکان ہے۔