’جیل سے بھی بدتر‘، پاکستان میں دستاویزات کے بغیر مقیم افغان باشندے روپوش

0
35

انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے دستاویزات کے بغیر مقیم افراد کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کے بعد برسوں سے پاکستان میں رہائش پذیر ہزاروں افغان باشندے روپوش ہوگئے ہیں کیونکہ وہ اپنے آبائی ملک میں طالبان انتظامیہ کے تحت ظلم و ستم کا سامنا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

غیرملکی خبرایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق نامعلوم مقام سے 23 سالہ افغان خاتون نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا دروازہ باہر سے بند ہے، ہم اندر قید ہیں، ہم لائٹس نہیں جلا سکتے یہاں تک کہ ہم زور سے بات تک نہیں کر سکتے‘۔

روپوش دیگر لوگوں کا کہنا تھا کہ مقامی حامیوں نے پڑوسیوں کو گھر کے خالی ہونے کا یقین دلانے کے لیے دروازے پر تالا لگا دیا ہے۔

کابل سے تعلق رکھنے والی خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں خوف ہے کہ اگر وہ افغانستان واپس لوٹ گئیں تو ان پر طالبان انتظامیہ کی جانب سے مقدمہ چلایا جائے گا کیونکہ 2019 میں انہوں نے اسلام چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور اسلامی عقیدے کو ترک کرنا طالبان کے سخت قانون کے تحت ایک سنگین جرم ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا ماننا ہے کہ یہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جو پاکستان میں روپوش ہوگئے ہیں تاکہ وہ حکومت کی جانب سے غیر دستاویزی مہاجروں کو ملک چھوڑنے کے دباؤ کے تحت بے دخلی سے بچ جائیں۔

انتظامیہ نے یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد ملک گیر کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے۔

کراچی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن 30 سالہ سجل شفیق حکومت کی اس پالیسی سے قبل کئیکمزور افغان شہریوں کو رہائش کی تلاش میں مدد کی ہے، وہ سپریم کورٹ سے ملک بدری کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کرنے والے دیگر درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں